(سورہ حج)‘‘{اﷲ تعالیٰ منتخب کر لیتا ہے فرشتوں میں سے احکام پہنچانے والے اور آدمیوں میں سے یقینی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔}
یعنی اﷲ تعالیٰ تمام احوال سے خوب واقف ہے۔ وہ اپنے علم میں ملائکہ اورا نسانوں میں سے جس کو اس منصب کے لئے مناسب سمجھتاہے،منتخب فرماتاہے اور عموماً ہر زمانہ میں ملائکہ میں سے اس منصب کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی کو منتخب کیاگیاہے۔ قرآن شریف سب کاسب یقینا حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی لائے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس کی تصریح ہے:’’نزل بہ الروح الامین(سورہ شعرائ)‘‘{اس کو یعنی قرآن شریف کو روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام لائے ہیں۔}
بلکہ دوسری کتب الٰہیہ بھی غالبا جبرائیل علیہ السلام ہی لائے ہیں۔ لیکن آیت میں ’’رسلا‘‘ جمع اس وجہ سے ہے کہ بعض موقع پر بعض احکام دوسرے فرشتے بھی لائے ہیں۔ جیسا کہ :’’ولقد جآئت رسلنا ابراہیم‘‘’’’ولقد جآئت رسلنا لوطا‘‘میں تصریح ہے۔ گو ان میں بھی رئیس جبرائیل علیہ السلام ہی تھے۔ غرض بعض موقعہ پر اور ملائکہ کو بھی بھیجا گیاہے۔ لیکن عام طور پر یہ ڈیوٹی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی کے سپرد ہی ہے۔
ملائکہ کے پردار ہونے کی وجہ
چونکہ سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لئے انتخاب ملائکہ کی بھی ضرورت تھی۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن وہ رہتے آسمانوں میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسافت بہت لمبی ہے۔بعض روایات کے اعتبار سے زمین سے آسمان تک پانچ سو سال کا راستہ ہے اور ایسا ہی ہر آسمان سے دوسرے آسمان کی چھت کی موٹائی بھی پانچ سو سال کا راستہ ہے۔ تو گویا ساتویں آسمان کی چھت تک سات ہزار سال کا راستہ ہے تو اتنی دور سے احکام لانے کیلئے اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی تیز رفتاری کا انتظام کیا جائے ورنہ نبی کی تمام عمر میں ایک دفعہ بھی احکام کا آناممکن نہیں تھا۔ کیونکہ وہ جگہ جو بمنزلہ ڈاکخانہ کے قرار دی گئی ہے۔ وہ جگہ ساتویں آسمان میںہے۔
اس مقام کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ جس قدر احکام عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں۔ پہلے وہاں پر نازل ہوتے ہیں۔ پھر وہاں سے ملائکہ لے کر زمین پرلاتے ہیں۔ تو گویا سدرۃ المنتہیٰ ملائکہ کوا حکام ملنے کاڈاک خانہ ہے اور وہی مقام ہے۔ جبرائیل علیہ السلام کا جو عموماً اس ڈاک کے پہنچانے کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں اور وہ ڈاک خانہ زمین سے تقریباً سات ہزار سال کے راستہ کے فاصلہ پرہے۔ تو اتنی دور سے ڈاک لانے کے لئے بڑی زبردست تیز رفتاری کی