میری تعظیم کرے۔ علیؓ کو شرف صحبت جناب رسول اﷲؐ سے جو حاصل ہے۔ وہ چھوڑ کر سب کمالات کو ظلی طور پر اﷲ جل شانہ نے مجھ کو عطا کیااو ر مجھ کو بارہا بذریعہ الہام فرمادیا ہے کہ ہر شخص سید ہو یا کوئی اور ہو۔ جو تیری اطاعت اور فرمانبرداری غلامی کی طرح کرے گا۔ اسی پر میرا فضل ہوگا ورنہ درحالت انحراف و حسد سید ہونا کسی کام نہیں آئے گا۔
غرض آپ کے لئے سیدہونے کی یہی نشانی ہے کہ میرے فرمانبردار خادموں میں داخل ہو جائیے۔ ایسا ہی اﷲ نے الہام سے مجھے مطلع کیا ہے۔ سو خدا کرے کہ آپ میں سچے سادات کی سچی نشانی پائی جائے۔ میں دیکھتا ہوںکہ صدہا سید نیک بخت میری کفش برداری پر فخر کرتے ہیںاوراپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ سو خدا کرے کہ آپ میں بھی یہ سچی نشانی سید ہونے کی پیدا ہو جائے۔ مورخہ۱۱؍اپریل ۱۸۸۶ء راقم غلام احمد۔غلامی میں ہی اولاد سے بڑھ گئے۔ شاباش غلام ہوں تو ایسے ہوں۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب! آپ نے یہ مثل سنی ہے کہ منہ لگائی ڈومنی گائے آل پتال۔ اس مرزے کو جو چند جوشیلے مسلمانوں نے پادریوں اور ان کے عیسی مسیح کو گالیاں دیتے پاکر مجدد وقت مان لیا۔ پھر کیا تھا۔ اپنے آپے سے باہر ہوگئے۔
نووارد… قاضی صاحب۔میری ابتداء سے یہی رائے ہے کہ اس کواس کے مان لینے والوں نے بگاڑا۔ وہ ایسے اندھا دھند اس کی باتوںمیں آمناوصدقنا کہتے گئے۔ گویا آنحضرت کایہ فرمان کہ میری امت میں جھوٹے نبی پیدا ہواکریںگے۔ ان سے بچنا۔ انہوں نے کبھی سنا بھی نہ تھا۔ یہ لوگ اگرمٹی کا حقہ دلی دروازہ سے خریدتے ہیں۔ تو دس دفعہ ٹھوک بجا کر دیکھتے ہیں مگر دین جیسے معاملہ میں پیسے پلے سے دے کر پیٹھ لگوا لیتے ہیں۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب افسوس! کہ مرزے کی یہ تحریرات مرزے کی زندگی میں میری نظر سے نہ گزریں ورنہ آپ دیکھتے۔
نووارد… قاضی صاحب کیا دیکھئے۔
قاضی صاحب… آپ یہ دیکھتے کہ یا تو میں آج آپ لوگوں میں نہ ہوتا۔ یا مرزے کی موت قریب ہونے کا مقدس اورمتواتر الہام ۱۹۰۵ء سے۱۹۰۸ء تک پڑاسڑا نہ کرتا اور آج آپ اس الہام کو اس کرسی پر بیٹھ کرجھوٹا ثابت نہ کرتے۔مجھے علماء دین پر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس پر کفر کا فتویٰ لگانے میں اتنی دیر کیوں لگائی۔
نووارد… قاضی صاحب!یہاں آپ زبردستی کرتے ہیں۔ جس شخص نے اپنا ظاہر مسلمانوں کا