گئے ہیں۔ یوں تو اوربھی تلاش کرنے سے حاصل کئے جا سکتے تھے۔ مگر ہمیں مولوی محمدعلی کے حال ناقابل پرسش پر رحم اورترس آگیا۔ اگر ایسا شخص جو ہر بات میں اپنے منہ بولے پیر و مرشد سے اختلاف رکھتا ہے،اس کا جانشین، خلیفہ اورنائب ہو سکتا ہے۔ تو پھر بخدا کل اگر دہریہ خلیفہ اﷲ ہونے کا دعویٰ کردے تو ہم اس کے اس دعویٰ کی تردید اس بناء پر کہ ’’وہ خدا کے ہر عمل میں مخالف ہے‘‘ ہرگز نہ کر سکیںگے۔ پس چاہئے کہ لاہوری احمدی غور کریں۔
(۲)مرزا قادیانی کا فیصلہ
مرزا قادیانی کا یہ صاف صاف فیصلہ ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ’’جو شخص ہماری ہر بات کو نہیں مانتا،وہ ہم میں سے نہیں ہے اور نہ وہ ہماری جماعت سے شمار ہوگا۔‘‘
پس مرزا قادیانی کے اس صاف اورواضح ارشاد سے روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا ہے کہ مولوی محمدعلی صاحب جنہوں نے مرز قادیانی کے صدہا اقوال کو انتہاء درجہ کی بے رحمی اور ناخدا ترسی سے نامقبول اوررد کردیا ہے۔ وہ کسی طرح بھی جانشین ہونا تو قطعاً ایک معمولی احمدی بھی نہیں کہلاسکتے۔
خلاصہ یہ کہ مولوی صاحب موصوف دائرہ احمدیت سے بحکم بانیٔ احمدیت خارج اور بہمہ وجوہ باہر ہو گئے ہیں۔ اچھا یہ تو ہوا سہی کہ احمدیت سے نکلے۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان بھی رہے ہیں یا کہ نہیں؟
اس کے متعلق مرزا قادیانی کا یہ ارشاد ہے کہ ’’جو لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کا باپ سے پیدا ہونا مانتے ہیں، وہ دائرئہ اسلام سے خارج اور کافر ہیں۔‘‘ (الحکم ۲۴؍جون ۱۹۰۱ئ)
پس مرزا قادیانی کے اس ارشاد کے مطابق مولوی محمد علی بلاشبہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر قرار پائے۔ آہ!…یہ کیسا ظلم ہوا کہ ایک طرف تو احمدیت سے نکلے اور دوسری طرف بہ یک طفرہ اسلام کے احاطہ سے بھی باہر جاپڑے۔ ظاہر ہے کہ یہ ظلم کسی اور کے ہاتھ سے ان پر نہیں ہوا۔ بلکہ جیسا کہ امر واقعہ ہے۔ ان صاحبان ذوالا حترام نے خود اپنے ہاتھوں سے لاعلمی کے جوش میں آکر اپنی جان باشان پر کیا ہے۔ سچ پوچھو تو یہ حقیقت ہے کہ مرزا قادیانی کو ان کی ذات ستودہ صفات سے بڑی بڑی توقعات تھیں۔ مگر افسوس کہ یہ کسی مرض کا بھی علاج ثابت نہ ہوئے۔
بجائے اس کے کہ حضرت مرزا قادیانی کی شان کو بڑھاتے اور ان کی قدر ومنزلت کو دوبالا کرتے،انہوں نے الٹا ہر مسئلہ اور ہر بات میں ان سے اختلاف ظاہر کر کے ان کو گھٹانے اور نیچے گرانے کی سعی نامشکور فرمائی ہے۔ خدا ان کو جزائے واجب دے۔