میں قلم اٹھاتا۔ مگر خیر خواہی بنی نوع نے مجبور کیا کہ جس قدر ہو سکے۔اسی قدر تحریر میں لایا جا ئے لہٰذا خداوند تعالیٰ پربھروسہ کرتے ہوئے اول مسئلہ رسالت شروع کرتاہوں اوردعا کرتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ اس مسئلہ سے فارغ ہوکر دو مسئلوں کو بھی تحریر میں لاؤں۔آمین!
پیغمبروں کے بھیجنے کی ضرورت
میں مناسب سمجھتاہوں کہ سب سے پہلے اس امر کو واضح کردوں کہ انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔لیکن اس امر کی وضاحت کے لئے اول چند مقدمات کو بطور تمہید ذکرکیاجاتاہے تاکہ مقصد کے ذہن نشین ہونے میں آسانی ہو۔
پہلا مقدمہ
کسی ذی عقل پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ انسان پر خداوند تعالیٰ کی اطاعت و رضا جوئی فرض ولازم ہے۔ دلیل اس مقدمہ کی یہ ہے کہ خداوند خالق اورانسان مخلوق،خدا وند مالک انسان مملوک، خداوند حاکم، انسان محکوم، خداوند رازق، انسان مرزوق،خداوند محبوب انسان محب۔ ظاہر ہے کہ مخلوق پر خالق کی رضا جوئی فرض ہے اورمملوک پر مالک کی رضا جوئی لازم ہے اور محکوم پر حاکم کی رضا جوئی واجب ہے اور مرزوق پر رزاق کی رضا جوئی ضروری ہے اور محب کا محبوب کی رضا جوئی میں مرمٹنا عاشقوں کا شیوہ ہے۔ خصوصاً محبوب بھی ایسا کہ تمام دنیا کے محبوب بھی اس کے دست نگر ہوں۔ان باتوں میں سے ایک بات کا ہونا بھی رضا جوئی کے فرض ہونے کے لئے کافی ہے۔ حالانکہ خدا تعالیٰ میں تو یہ تمام باتیں موجود ہیں۔ بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سی باتیں خدا تعالیٰ میں موجود ہیں۔ جو انسان کو اس کی اطاعت و رضا جوئی پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً بیماری و دیگر مصائب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ۔ تو اب ان باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے کون سا ذی عقل ہے جو اس بات کا انکار کرے کہ خداوند تعالیٰ کی رضا جوئی انسان پر فرض نہیں ہے۔ وجوہ مذکورہ بالا کی طرف قرآن شریف میں متعدد جگہ توجہ دلائی گئی ہے۔
دوسرا مقدمہ
انسان اپنی سمجھ وعقل سے خداوند تعالیٰ کی رضاوغیر رضا ہرگز معلوم نہیں کر سکتا۔ جب تک کہ وہ خود نہ بتلائے۔دلیل اس مقدمہ کی یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی رضا وغیررضا کو بھی بغیر بتلائے ہوئے ہرگز معلوم نہیں کرسکتا۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کو نظر آتے ہیں۔ کیونکہ دونوں جسم ہیں اور جسم تمام چیزوں سے زیادہ ظاہر ہوتاہے۔ بلکہ ایک دوسرے کو ہاتھ سے