نبی اور امتی
ناظرین کرام پر پوشیدہ نہ رہے کہ اس لفظ نبی سے مراد جو ہم نے اوپر لکھا ہے۔ حضرت مرزا قادیانی کا وجود باجود ہے اور لفظ امتی سے مراد جناب مسٹر محمد علی صاحب امیر طائفہ مرزائیہ لاہور کا وجود مسعود ہے۔ چونکہ ہم نے اس مسطورہ بالا عنوان کے ماتحت جناب محترم ایڈیٹر المائدہ کے حسب فرمائش مسٹر محمدعلی اورمرزا قادیانی کی تحریرات میں باہمی اختلاف دکھانا اور اس امر کو بالکل وضاحت سے بتانا ہے کہ ’’حضرت نبی‘‘ یعنی مرزا قادیانی کچھ فرماتے ہیں اور ’’حضرت امتی‘‘ یعنی جناب مسٹر محمد علی صاحب کچھ اور کہتے ہیں۔ جو مرزا قادیانی کے قول و ارشاد کے بالکل مخالف اورمناقص ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے سر مضمون پر نبی اور امتی کا عنوان قائم کیا۔ تاکہ ہر دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں یہ جان لے کہ اس عنوان کے ذیل میں یقینا امتی صاحب کا نبی صاحب سے اختلافی کارنامہ دکھایا جائے گا۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک عجیب اور دلچسپ بات اوربالکل لا مثال، اور بے نظیر قصہ ہے۔ جو امتی صاحب کے ذات ستودہ صفات کی بدولت ہمارے سامنے آیا ہے۔ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ اس سے پہلے جو اتنا بڑا طویل اور ممتد زمانہ گزرا ہے۔اس میں کوئی ایک بھی ایسی قوم یا جماعت پیدا نہیں ہوئی۔ جس نے ایک شخص کو نبی، رسول، پیشوا، اما م حق، حکم و عدل اور خدا کا مقدس پیغمبر و مرسل مانا اور تسلیم کیا ہو اورپھر اس کی ہر ایک بتائی ہوئی اور تعلیم دادہ بات سے کھلے طور پر نڈر اور بے دھڑک ہوکر اپنا اختلاف ظاہر کیا ہو۔
سچ ہے کہ ایسی کوئی جماعت آج سے پہلے پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں اگر کسی جماعت کو خداوند کریم نے اس شان اور اس عقل کا پیداکیا ہے تو وہ مسٹر محمد علی صاحب کی جماعت ہے۔ جو چودھویں صدی کے سر پر مجدد مفروضہ کے ظہور کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئی ہے تاکہ لوگ اور دنیا کے دانا بندے اس کو دیکھ کر خدا کی قدرت تامہ اور مشیت عامہ پر یقین لائیں کہ وہ عزاسمہ جس کو جیسا چاہتا ہے،پیدا فرماتاہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب
ممکن ہے کہ کسی دوست کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ مسٹر محمدعلی صاحب تو مرزا قادیانی