علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالیاگیا اور سراقہ کی سواری کو خشک زمین میں دھنسا دیاگیا جو حضورﷺ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو مارنے کے ارادہ سے جارہا تھا اور اگر کسی نبی کو خاص اعزاز دینا منظور ہو مگر ظاہری اسباب اس کو پورا نہیں کرسکتے تو اس ضرورت کو بصورت معجزہ پورا کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ واقعہ معراج اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ اپنے حبیب پاک کو یہ اعزاز عطا فرماوے مگر ظاہری اسباب کی رو سے اس قدر مسافت ہزارہا برس میں بھی طے نہیں ہوسکتی تھی۔ تو اس کو بصورت معجزہ سرانجام دیاگیا اوراگردشمن کو ہلاک کرنامنظور ہو مگرظاہری اسباب وفا نہیںکرتے تو اس ضرورت کو بصورت معجزہ پورا کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حضورﷺ کا ایک مٹھی کنکریوں کا پھینکنا اور تمام لشکر کفار کی آنکھوںمیں پڑنا جنگ بدر میں ہواتھا۔
الحاصل یہ کہ معجزات علاوہ تحدی کے باقی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جس قسم کی ضرورت ہوگی اسی رنگ کا معجزہ ہوگا۔ اس تقریر کے بعد ہر شخص کو معلوم ہوجاتاہے کہ انبیاء علیہم السلام کے یہ معجزات مختلف کیوںتھے۔ سب کو ایک قسم کے معجزے کیوں نہیں دیئے گئے؟ اس لئے کہ جب ضرورتیں مختلف ہوںگی تو ان کے پورا کرنے کی صورتیں بھی مختلف ہوںگی اورجو معجزات بغرض تحدی دیئے جاتے ہیں۔ ان کے اختلاف کی وجہ اوپرگزر چکی ہے۔
پیغمبروں کے پاس علم آنے کے ذرائع
جن حضرات کو خداوند تعالیٰ منصب نبوت کے لئے منتخب فرماتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ سے اپنی رضا وغیر رضا کا قانون بندوں کو پہنچا دیں۔ ان حضرات کے پاس علم آنے کے تین طریقے ہیں۔ جو قرآن شریف میں اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں:’’وماکان لبشران یکلمہ اﷲ الاوحیا اومن وراء حجاب اویرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشاء انہ علی حکیم (سورہ شوریٰ)‘‘{اور کسی بشر کی یہ شان نہیںکہ اﷲ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر یا تو الہام سے یا پردہ کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ خداکے حکم سے جو خدا کو منظور ہو پیغام دے وہ بڑاعالی شان،بڑی حکمت والا ہے۔}
اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ مقربین کے پاس خدواوند تعالیٰ کی طرف سے علم ملنے کے تین طریقے ہیں۔(۱) الہا م یعنی دل میں کوئی اچھی بات ڈال دینابیداری یا خواب میں۔کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا خواب بھی حکم وحی میں ہوتاہے۔ (۲) پردے کے پیچھے سے کلام سنا دینا جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے سناتھا۔ یعنی صرف کلام سنائی دے،نظر کچھ نہ آئے اوریہ حجاب کوئی جسم نہیں جو