تشریح معجزات قسم اول
معجزہ اگرچہ نبوت کی حقیقت سے خارج ہے۔ کیونکہ نبوت کا ملنا اظہار معجزہ پر موقوف نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن اظہار صداقت کے لئے چونکہ نبی کومعجزہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بناء پر خدا تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام کو اپنے اپنے زمانہ میں حسب ضرورت خاص خاص معجزے عطاء ہوتے رہے تاکہ قوم کے سامنے صداقت کا اظہار کر سکیں۔خصوصاً وہ حضرات جو نئی شریعت لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ ان کو معجزات کی ضرورت بہ نسبت دیگر حضرات کے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک بہت بڑاانقلاب کرنے کے لئے آتے ہیں۔ لوگ ان کی مخالفت زیادہ زور سے کرتے ہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کے دلوںمیں پہلی شریعت کی وقعت و محبت اس قدر ہوتی ہے کہ وہ اس کو چھوڑ کر دوسری شریعت کو قبول کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے کہ انسان کومذہب سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ خواہ اس کامذہب نفس الامر میں باطل ہی کیوں نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ انسان مذہبی امورمیں کسی بڑے سے بڑے حاکم کے فیصلہ کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ کروڑ روپے کی ڈگری ایک معمولی حاکم سے اپنے برخلاف سن کر سرتسلیم خم کرسکتا ہے۔ مگر مذہب کے متعلق کسی بڑے سے بڑے حاکم کے فیصلہ کو بھی قبول نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ ارباب سلطنت مذہبی امور میں دخل نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سلطنت میں فساد برپا ہو جائے گا۔ لوگ لڑنے مرنے کے لئے آمادہ ہو جائیںگے۔ مگر مذہب کے خلاف فیصلہ کو نہیں مانیںگے۔ لہٰذا جو انبیاء علیہم السلام نئی شریعت لے کر آتے ہیں اور لوگوںسے پہلی شریعت کے بجائے اپنی شریعت منوانا چاہتے ہیں۔ تو لوگ ان کا مقابلہ زیادہ زور سے کرتے ہیں لہٰذا ان حضرات کو اس بات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ ان کو ایسے زبرست معجزے دیئے جائیں کہ لوگ ان کے مقابلہ سے عاجز آکر سر تسلیم خم کر دیں۔اگرچہ معاندین تو پھر بھی نہیں مانیں گے لیکن انصاف پرست تو ضرور ہی مان جائیںگے۔
اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے موسیٰ علیہ السلام کو عصا ویدبیضا عطاء کیاگیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو ’’احیاء موتی و ابراء اکمہ وابرص وخلق طیر‘‘یعنی مردوں کو زندہ کرنا اور مادرزاد اندھوں کو اور برص کے بیماروں کو اچھا کرنا اور گارے یعنی مٹی کے جانور بنا کر اڑانا وغیرہ عطاء کیاگیا اور رسول اکرمﷺ کو اعجاز قرآن دیا گیا۔ یعنی ایسی کتاب عطاء فرمائی گئی کہ جس میں وصف اعجاز رکھ دیا جس کی تشریح عنقریب آئے گی۔