کرو۔ توحضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب میں عرض کریںگے کہ خداوند! اگر میں یہ بات کہتا تو تجھے معلوم ہوتا۔میں جب تک ان میں رہا۔ان کے حال کانگران رہا۔ پھر جب تو نے مجھے موت دے دی تو تو ہی ان کا نگران حال تھا۔
اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس جواب کے اگر یہ معنے نہیں تو اورکیاہیں؟کہ جب تک میں ان میں زندہ رہا۔ ان کے حالات کودیکھتارہا۔لیکن جب میری زندگی کا خاتمہ ہوگیا تو پھر مجھے خبر نہیں کہ انہوں نے کیاکیا۔
اس جواب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کشمیر جانے کا قصہ تو چاروں خانے چت ہو گیا۔کیونکہ کشمیر جاکر نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان میں رہتے تھے اور نہ وہاں بیٹھ کر شام کے لوگوں کے حالات دیکھتے تھے۔ پس ثابت ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت فوت ہوئے۔جب وہ شام کے لوگوں میں تھے اور ان کے حالات دیکھ رہے تھے۔اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سولی سے زندہ اترنا غلط ثابت ہوا۔پس ان کی اپنی ہی دلیل نے ان کے دعوے کو بنیاد سے اکھاڑ دیا۔ ہاں ثابت ہوا توکیا ہوا کفارہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مر کر اپنی امت کو بخشوا گئے۔باقی رہ گئے ہم اور ہمارا ساتھی ہمارا قرآن کہ وہ ’’وماقتلوہ وماصلبوہ‘‘خدا ہمیں اس پر قائم رکھے اور اس پر مارے۔
اس پر سب نے آمین تو کی۔ لیکن خوشی کے مارے حاضرین کاکیاحال تھا وہ بیان سے باہر۔ قاضی صاحب نے اس ۶۰،۶۲ سال کے نووارد بوڑھے کا منہ اس شوق سے چوما کہ اس کا بیان کرنا مشکل ہے اور اس کو اٹھا کر صحن میں اس طرح پھرے کہ گویا ککر سنگھ کی بوٹے نے پیٹھ لگادی۔
بابوصاحب… مہربانی کریں۔ میرے پاس بیٹھ کر یہ تقریر اپنی مجھے لکھوادیں۔
نووارد… بہت بہتر لکھئے۔
مرزا کا دعویٰ
حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے۔ابن مریم مر گیاحق کی قسم۔
سوال… کس طرح فوت ہوئے؟
جواب… اس طرح کہ حضرت عیسیٰ کو یہودیوں نے پکڑ کر سولی پر کھینچ دیا۔سولی سے اتارے گئے۔ تو جان باقی تھی ۔ تین دن قبر میں رہے۔پھرمخفی طور پر حواریوں سے صلیبی زخموں پر مرہم لگوا کر کشمیر بھاگ گئے۔ وہاں رہ کر ۸۶ سال کے بعد فوت ہو گئے۔