کے علاوہ آیت و خاتم النبیین مطلق نبوت کی نفی کرتی ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے اور احادیث کو نبوت غیر مستقلہ کی نفی پر حمل کرنے کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان میں نبوت مستقلہ کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ تھاکہ تمام احادیث میں اس قسم کے قرائن موجود ہیں جو دلالت کرتے ہیں۔ اس بات پر کہ نبوت غیر مستقلہ نفی نبوت میں قطعاً داخل ہے نہ یہ معنی کہ نبوت مستقلہ نفی نبوت میں داخل ہی نہیں ہے۔
دلائل عقلیہ
۱… جب آپ ﷺ کا نبی ہونا دلائل سے ثابت ہے اور اہل کتاب بھی آپﷺ کے نبی ہونے کو خاص عرب کے لئے تسلیم کر چکے ہیں۔ تو آپﷺ کا ہر دعویٰ سچا ہوگا۔ کیونکہ نبی کا جھوٹ بولنا محال ہے۔ کیونکہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اورنبی کا معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ جس کی تشریح ابتداء میں گزر چکی ہے اورآپﷺ نے اپنی زبان مبارک سے دعویٰ خاتم الانبیاء ہونے کا کیا ہے۔پس مانناپڑے گا کہ آپ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔
۲… جس قدر انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ان سب کی تعلیم سے حضورﷺ کی تعلیم اعلیٰ وافضل ہے اوراظہر من الشمس ہے کہ معلم اعلیٰ کی تعلیم سب سے آخر حاصل کی جاتی ہے۔ کیونکہ جب تک ابتدائی مراتب تعلیم کے پہلے حاصل نہ کئے جائیں۔ انتہائی تعلیم کا حاصل کرنا دائرہ امکان سے خارج ہوتاہے۔ اسی وجہ سے معلم اعلیٰ یعنی حضورﷺ کو تمام پیغمبروں کے بعد بھیجا گیا۔
باقی رہی یہ بات کہ حضورﷺ کی تعلیم کادیگر حضرات کی تعلیم سے اعلیٰ و افضل ہونا کیونکر معلوم ہو تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ جس شخص کو اس امر میں تردد ہو وہ آپﷺ کی تعلیم اور باقی حضرات کی تعلیم میں نظر انصاف سے دیکھے تو انشاء اﷲ یہ امر آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا۔ غور کرنے والے کوآپﷺ کی تعلیم میں بہ نسبت باقی تعلیموں کے دو طرح کا امتیاز حاصل ہو گا ۔ ایک یہ کہ آپﷺ سے پہلے جس قدر حضرات تشریف لائے ہیں۔ ان سب کی تعلیم مخصوص ہوتی تھی۔ خاص خاص صیغوں کے ساتھ۔ مگرآپﷺ کی تعلیم جامع ہے۔ تمام صیغوں کو جس کی قدرے تشریح اوپر گزر چکی ہے اوردوسرا امتیاز یہ ہے کہ ہر صیغہ کے قواعد کی تشریح و تفصیل اور ان میں مصلحت عامہ کا لحاظ جس قدر حضورﷺ کی تعلیم میں ہے۔ کسی دوسرے نبی کی تعلیم میں اس کا عشیر عشیر بھی نہیں پایاجاتا۔