دعویٰ، نبوت کے دعوے سے انکار، پھر مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ،مسیح موعود ہونے سے انکا ر او ر آخرش نعوذ باﷲ من ذلک،حضور ختمی مرتبت، خاتم النّبیین، رحمۃ للعلمین، محمدمصطفیﷺ کے بروز (دوبارہ ظہور) کادعویٰ۔
جھوٹ پر جھوٹ، دعوے پر دعوے،یہ کام وہی کر سکتا ہے جو بظاہر لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ کہتاہو اورقرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے اور محمد رسول اﷲ ﷺ کے خاتم النّبیین ہونے کا اعلان کرتا ہو لیکن جس کے دل میں خدا کا خوف اوررسول کی محبت نہ ہو او ر جس کا روز قیامت اور اﷲ تعالیٰ کے آگے حساب کتاب پریقین ختم ہو چکاہو۔ یہ ساری باتیں مرزا غلام احمد قادیانی میں نظر آتی ہیں۔
’’مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے۔ جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بناء نئی نبوت پررکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتماد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس کے لئے اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔‘‘ (حرف اقبال)
’’قادیانی صاحبان تبلیغ اسلام کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا مسلمانوں پر بڑا احسان دھرتے ہیں لیکن انصاف سے دیکھئے تو بے سروپا عقائد مسلمانوںمیں پھیلارہے ہیں۔ اسلام سے ان کو ہٹارہے ہیں۔ دین و ایمان گنوارہے ہیں۔ من مانے حاشئے چڑھارہے ہیں۔ بچوں کا کھیل بنا رہے ہیں۔ تخریب دین کو تبلیغ دین بتارہے ہیں۔ امت محمدی میں فساد بڑھارہے ہیں۔‘‘
(پروفیسر محمد الیاس برنی)
(۴)گستاخانہ زبان اورگندے خیالات
مرزا غلام احمد نے ہر نئے دعویٰ کے ساتھ،دوسروں پر اپنی فضیلت جتانے کے لئے صحابہ کرام کے خلاف گستاخانہ لب ولہجہ اختیار کیا۔ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم المرتبت رسول کے خلاف دریدہ دہنی کی۔ حتیٰ کہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہیں کہ ان کا تصورکرنا بھی گناہ عظیم ہے۔
جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیاتھا۔ صحابہ کی فضیلت سے انکار نہ تھا۔ بلکہ اس کا اعتراف تھا۔ چنانچہ اپنے اخبار میں اعلان چھپوایا:’’میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ ان لوگوں(صحابہ) کا مداح اورخاک پا ہوں۔ جو جزوی فضیلت اﷲ تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے۔ وہ