اجمعین کی چھڑی کے سرپربطفیل جناب رسول اﷲﷺ اندھیری رات میں جب وہ آپﷺ کی خدمت اقدس سے رخصت ہونے لگے، روشنی ہوگئی اور وہ جانے والے دوصحابیؓ تھے۔ جہاں سے راستہ جدا ہوا وہاں روشنی بھی منقسم ہوکردونوں کے ساتھ ہولی۔ اب خیال فرمائیے کہ دست مبارک موسیٰ علیہ السلام اگر گریبان میں ڈالنے کے بعد بوجہ قرب قلب منور و روشن ہوجاتاتھا تو اول تو وہ نبی دوسرے نور قلب کا قرب تو اگر بوجہ قرب نورقلب دست موسوی میں نور آجائے تو کیا تعجب ہے؟ وہ صحابیؓ تو دونوں نبی بھی نہ تھے اور نہ ان کی لکڑی کو قرب وجوار نور قلب تھا۔بلکہ فقط برکت صحبت نبویﷺ تو اب اہل انصاف فیصلہ کریںکہ معجزات کس کے اعلیٰ و افضل تھے۔
معجزہ خلیل اﷲ سے مقابلہ
آتش نمرود میں خلیل اﷲ کے جسم کا نہ جلنا واقع میں ایک بہت بڑامعجزہ تھا۔ لیکن وہ اتنا تعجب انگیز نہیں تھا۔ جتنا اس دستر خوان کا آگ میں نہ جلنا جو حضرت انسؓ کے پاس بطور تبرک نبویﷺ تھا اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ بار بار اس قسم کا اتفاق ہواکہ جب میل چکناہٹ زیادہ ہو تو فوراًآگ میں ڈال دیا جب میل چکناہٹ جل گیانکال لیا اورقصہ مثنوی مولاناروم میں مذکورہے۔ اب خیال فرمائیے کہ ایک آدمی کا نہ جلنا اتنا تعجب خیز نہیں ہے جتنا کھجور کے پٹھوں کے دسترخوان کا اور وہ بھی ایسا کہ جس پر چکناہٹ بھی ہوتی ہو اورحضرت ابراہیم علیہ السلام اور دسترخوان میں زمین و آسمان کا فرق تھا اوروہ خود نبی اور نبی بھی ایسے کہ خلیل اﷲ اوردسترخوان میں فقط اتنی ہی بات کہ گاہے گاہے حضورﷺ کے ساتھ رکھاگیا اورآپﷺ نے اس پر کھاناکھایا۔
جب حضورﷺ کے معجزات کے مقابلہ میں ان حضرات کے معجزات کی یہ کیفیت ہے۔ باوجود ان کے اولوالعزم ہونے کے تو باقی حضرات کے معجزات کا تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی کیا کیفیت ہوگی۔
الحاصل حضورﷺ کے معجزات علمیہ اورعملیہ تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے اعلیٰ و افضل ہیں۔ لہٰذا اگر افضلیت کا دارومدار معجزات ہی پررکھاجائے تو تب بھی حضورﷺ ہی افضل الانبیاء ثابت ہوںگے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام جس قدر معجزات لائے تھے۔ جب دنیا سے رحلت فرمائی تو ان کو بھی ساتھ ہی لے گئے۔ اس وقت اگر آپ چاہیں کہ کسی نبی کے معجزہ کا مشاہدہ کریں تو غیر ممکن ہے مگر رسول اﷲﷺ رحلت کے بعد بھی قیامت تک اپنا معجزہ(یعنی قرآن شریف) باقی چھوڑ گئے۔ جو آپ ﷺ کا علمی معجزہ ہے اور تمام معجزات سے