فعل کو نبی کاذاتی فعل سمجھ کر اس کوخدابنالیتے ہیں۔ جیساکہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرتے دیکھا تو ان کو خدا بنالیا۔ اگر معجزہ کی صحیح حقیقت سے واقف ہوتے تو اس غلط فہمی میں نہ پڑتے۔ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا سچا نبی سمجھتے۔
پیغمبروں کا معجزات میں مختلف ہونے کا سبب
تمام انبیاء علیہم السلام کو مختلف معجزے دیئے گئے۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ سب کو ایک ہی طرح کے معجزے دے دیئے جاتے۔ مثلاً جو معجزے عیسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے یعنی مردے زندہ کرنا وغیرہ سب کو یہی دیئے جاتے۔ یا سب کو عصا اورید بیضا ہی دیاجاتا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ علی ہذا القیاس باقی معجزات۔ مگر ایسا نہیں کیاگیا۔بلکہ ہر نبی کوالگ الگ معجزے دیئے گئے ہیں۔
جیسا کہ معجزہ کی حقیقت سے صحیح طور پرآگاہ نہ ہونے کی وجہ سے نصاریٰ کو غلط فہمی ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنالیا۔ ایسا ہی اختلاف معجزات کی صحیح وجہ نہ معلوم ہونے کے سبب اکثر لوگوںکو غلط فہمی ہوئی ہے اورطرح طرح کے اعتراض پیش آئے ہیں۔ کسی نے تو یہ اعتراض کیا کہ:’’لولا اوتی مثل مااوتی موسیٰ‘‘ کہ رسول اﷲﷺ کو وہ معجزات کیوں نہیں دیئے گئے جو موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے۔یعنی عصا اوریدبیضا اورکسی نے ایک نبی کے معجزات کا دوسرے نبی کے معجزات سے مقابلہ کرنا شروع کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ جس نبی کے معجزے بڑے ہیں۔ وہ نبی بھی بڑا ہے۔مثلاً نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کے معجزات تمہارے نبی کے معجزات سے بڑے ہیں لہٰذا ہمارے نبی (عیسیٰ علیہ السلام) تمہارے نبی(ﷺ) سے افضل ہیں۔
ان غلط فہمیوں کو دیکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوا کہ اختلاف معجزہ کی صحیح وجہ بیان کر دی جائے تاکہ یہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔
انبیاء علیہم السلام کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم وہ معجزات جوبغرض تحدی عطاء کئے جاتے ہیں۔ یعنی اس غرض کے لئے کہ نبی جن لوگوںکی طرف بھیجا گیا ہے۔ ان معجزات کو ان کے مقابلہ میں پیش کر کے ان کو عاجز کردے اور ہرادے تاکہ اس کی صداقت ان لوگوں پر واضح ہو جائے اور دوسری قسم وہ معجزات ہیں۔ جو بغرض تحدی نہیں دیئے جاتے۔ یعنی ان کا ظاہر کرنا بغرض مقابلہ و اظہار صداقت نہیں ہوتا۔اگرچہ ظاہر کرنے کے بعد صداقت کی بھی تائید ہو جاتی ہے۔