یہی نہیں۔ بلکہ قرآن کریم میں متعدد جگہ مختلف انبیاء کے بارے میں بھی ایسا ہی آیا ہے۔ چنانچہ سورئہ شعراء نکال کر دیکھ لیجئے کہ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو کہا تھا کہ: ’’وما اسئلکم علیہ من اجران اجری الاعلی رب العٰلمین‘‘یعنی میں تم سے کوئی دنیوی صلہ نہیں مانگتا۔ بلکہ میراصلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
یہاں سے سچے نبیوں کا مابہ الامتیاز یہ بھی نکلا کہ وہ احکام کی تبلیغ میں اپنے لئے روپیہ اور چندہ نہیںمانگتے۔ جو کچھ کرتے ہیں۔محض اﷲ اورخاص خداکے واسطے کرتے ہیں۔
اب ہم مرزا قادیانی کو اس معیارپر پرکھتے ہیں کہ آیا وہ اس پرصادق اترتے ہیں یا کاذب؟
مرزاقادیانی نے اپنے لئے چندہ مانگاا وربہت سی رقم جمع کی۔ چنانچہ اپنے مکان کی وسعت کے لئے بڑے زوروشور سے اشتہاروں میںانہوں نے چندہ کی درخواست کی اور لوگوں سے روپیہ وصول کیا۔
مرزا قادیانی کی اپنی جائیداد تو بہت کم تھی۔ اتنی بڑی جائیداد جو انہوں نے مہیا کی۔ وہ سب چندہ کی بدولت تھی۔ لہٰذا مرزا قادیانی کو اس معیار کی رو سے کاذب ماننا پڑے گا۔
راہ پر ان کو تو لے آئے ہیں ہم باتوں میں
اور کھل جاویں گے دو چار ملاقاتوں میں
باب چہارم
مرزاقادیانی کے کذب میں چند عقلی معیار
اب ہم قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے اتنے ہی معیاروں پر اکتفاء کرتے ہیں اور چند ایک عقلی معیار پیش کرتے ہیں۔ غور سے ملاحظہ ہو۔
پہلا معیار
ہم دیکھتے ہیں کہ آج تک دنیا میں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس کی وفات کے بعد اس کے صحابہ میں اس بات پر اختلاف ہوگیا ہو کہ یہ نبی تھا یا نہیں؟
کوئی ایسی نظیر بتلائیے کہ کسی نبی کی جماعت اس کی وفات کے بعد اس طرح دو فریقوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک جماعت تو ان کی نبوت کا سرے سے انکار کرتی ہے اور دوسری جماعت ان کو نبی اورمرسل من اﷲ مانتی ہے۔