پیغمبروں کی تعلیم سے سب لوگ برابر مستفید نہیں ہوتے
انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے تمام لوگ یکساں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ بلکہ کوئی زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے کوئی کم اورکوئی بالکل محروم رہتا ہے۔ ناواقف آدمی کو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید تعلیم میں کچھ نقصان ہے۔ جس کی وجہ سے سب کو فائدہ یکساں نہیں ہوا۔ حالانکہ یہ وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی کامل ہوتی ہے۔ کوئی تعلیم ان کی تعلیم سے بہتر ہو ہی نہیں سکتی اور نہ وہ خود چاہتے ہیں کہ ہماری تعلیم سے کوئی محروم رہے۔ بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی زمین فطرت مختلف ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ کسی کی زمین فطرت اچھی ہے اور کسی کی خراب۔ اچھی فطرت والے فائدہ اٹھاتے ہیں اوربری فطرت والے محروم رہتے ہیں۔
خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس مسئلہ کو بارش کی مثال دے کر سمجھایا ہے: ’’والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرج الانکدا (سورہ اعراف)‘‘{اور جو زمین ستھری ہوتی ہے اس کا پیداوار خدا کے حکم سے خوب نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس کا پیداوار اگر نکلے بھی تو بہت کم نکلتا ہے۔}مطلب یہ ہے کہ بارش تو سب جگہ برابر برستی ہے اور اس میں فی نفسہ کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر باوجود اس کے کہیں پیداوار بہت اچھی ہوتی ہے اور کہیں بہت کم اور کہیں پھول پیدا ہوتے ہیں اورکہیں کانٹے۔جیسا کہ شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے شعر:
باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ دید ودرشورہ بوم خس
ایسا ہی انبیاء علیہم السلام کی تعلیم ایک روحانی بارش ہے۔ اس کی لطافت و کمال میں تو کوئی کلام نہیں ہے۔ لیکن جس کی زمین فطرت خراب ہے وہ مستفید نہیں ہوسکتااور جس کی زمین فطرت اچھی ہے۔ وہ فائدہ اٹھاتاہے۔ اس سے تعلیم پر کوئی دھبہ نہیں آتااور حضور اکرمﷺ نے بھی اس مسئلہ کو بارش کی مثال سے واضح فرمایا ہے:’’مثل مابعثنی اﷲ بہ من الھدی والعلم کمثل الغیث الکثیر اصاب ارضا فکان منھا نقیۃ قبلت الماء فانبتت الکلاء والعشب الکثیر وکانت منھااجادب امسکت الماء فنفع اﷲ بھا الناس فشربو اوسقواوزرعواواصاب منھا طائفۃ اخری انما ہی قیعان لاتمسک ماء ولاتنبت کلاء فذلک مثل من فقہ فی دین اﷲ ونفعہ بما بعثنی اﷲ بہ فعلم وعلم ومثل من لم یرفع بذلک راساولم یقبل ہدی اﷲ الذی ارسلت بہ‘‘