معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی ابتداء انہی معاییر کی تردید کی جائے۔ گو معاییر ہمیشہ سچے نبی کے لئے ہی ہوا کرتے ہیں اورجھوٹے اورکاذب ملہم کے لئے نہیں ہوتے۔ تاہم جواب دہی کی خاطر ان معیاروں کی تردید کر کے انہی پر پر کھ کر مرزا قادیانی کی نبوت،مجددیت، مہدویت اور مسیحیت کا ناظرین کے روبرو راز طشت ازبام کیا جائے گا۔ جو منصف مزاج کے لئے کافی او ر طالب حق کے لئے وافی ہوگا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
یاد رہے کہ اس کتاب میں چھ ابواب ہیں۔ جن کی تفصیل کے لئے فہرست مضامین ملاحظہ ہو۔
باب اوّل
مرزائی صاحبان کی طرف سے مرزا قادیانی کے صدق میں پیش کردہ معیار اور ان کی تردید:
پہلا معیار اوراس کی تردید
سب سے بڑامعیار جو مرزائی صاحبان مرزا قادیانی کی صداقت میں پیش کیا کرتے ہیں اورجس پر ان کو ناز ہے،وہ یہ ہے۔’’فمن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا اوکذب بایٰتہ انہ لا یفلح الظالمون‘‘{اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔}
آیت بالا سے یہ امر ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں کہ اگر مرزاقادیانی فی الحقیقت کاذب ہوتے۔اگر وہ اﷲ تعالیٰ پر افتراء باندھتے،اگر وہ دعویٰ نبوت میں بطلان پر ہوتے۔ اگر ان کا یہ قول کہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی مبعوث ہوکر آیا ہوں ، جھوٹ ہوتا، تو ان کو دنیا میں ہرگز ہرگز فلاح وکامیابی نصیب نہ ہوتی۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ (۱) کیا کامیابی سے مراد زیادہ دیر تک زندہ رہنا ہے؟ (۲) یا کامیابی سے مراد جماعت متبیعن کا زیادہ بڑھ جانا ہے؟(۳) یا کامیابی سے مراد اموال و اولاد کا زیادہ ہوجاناہے؟
ہاں!اگر کامیابی سے مراد زیادہ دیر تک زندہ رہنا ہے،توبتلائیے کہ فرعون جس نے ۴۰۰ برس تک حکومت کی اور اس کے عروج و غرور کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ ’’قال اناربکم الاعلیٰ‘‘کہہ کر خدائی تک کا دعویٰ کردیا۔ قرآن اس پرشاہد ہے۔ لیکن اس سرکشی،اس افتراء پردازی، اس بغاوت، اس مطلق العنانی اوراس ظلم کے باوجود وہ ایسا کامیاب رہا کہ اس کی نظیر دنیا