کی طرف متوجہ ہو اس ضرورت کے پورا کرنے کے لئے معجزات تجویز کئے گئے ہیں۔
الحاصل معجزات نبوت سے خارج ہیں۔ نبوت ان پر موقوف نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اول معجزات میں امتحان ہو جو معجزات دکھا دے اس کو نبوت عطاء کی جائے۔ جو معجزات نہ دکھائے اس کو نبوت نہ ملے۔بلکہ نبوت پہلے دی جاتی ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے سامنے اس نبوت کا اظہار کرنے کے لئے معجزے دیئے جاتے ہیں لہٰذا وہ حقیقت نبوت سے خارج ہوتے ہیں۔ بلکہ عموماً لوازم نبوت میں سے ہوتے ہیں۔ اگر قوم بغیر معجزہ دکھائے ہوئے ایمان لے آئے۔ تو معجزہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ ایسا اتفاق بہت کم ہوتاہے۔ بلکہ معجزہ دکھانے کے بعد بھی قوم کا ایمان لانا غنیمت ہوتاہے۔لہٰذا معجزات کا دینا عموماً نبوت کے ساتھ لازم ہوتاہے۔
معجزات کی حقیقت
معجزہ عربی لفظ ہے۔ جس کا مصدر اعجاز ہے۔ اعجاز کے معنے عاجز کر دینے اور ہرا دینے کے ہیں۔ یعنی نبی ایک ایسا کام کر دکھاتاہے کہ اورلوگ سب کے سب اس کام کے کرنے سے عاجز آ جاتے ہیں اور اس کام میں نبی کا مقابلہ کرنے میںہار جاتے ہیں اور معجزہ حقیقت میں نبی کا فعل نہیں ہوتا۔ بلکہ فعل خدا ہوتاہے۔ جو نبی کے ہاتھ پرظاہر کیاجاتاہے تاکہ لوگ اس کو دعویٰ نبوت میں سچا سمجھ کرایمان لے آئیں۔ کیونکہ جب لوگ ایک شخص کے ہاتھ سے ایسا کام ہوتا دیکھ لیتے ہیں۔ جو ان سے نہیں ہوسکتا تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کام انسانی طاقت سے نہیں ہوا بلکہ خدائی طاقت سے ہواہے۔ورنہ ہم بھی کر لیتے اورخدائی طاقت جھوٹے کا ساتھ نہیں دے سکتی لہٰذا یہ سچا ہے۔
قرآن شریف میںاس بات کی تصریح موجود ہے کہ معجزہ حقیقت میں فعل خدا ہوتا ہے۔ جو نبی کے ہاتھ سے ظاہر کیاجاتاہے۔ :’’وما رمیت اذرمیت ولکن اﷲ رمیٰ‘‘ جنگ بدر میں حضورﷺ نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی۔ جس کے ریزے سب کی آنکھوںمیں جاگرے اوران کو شکست ہوئی۔ ایک مٹھی کا تمام لشکر کی آنکھوں میں پڑنا یہ ایک معجزہ تھا جوحضورﷺ کے ہاتھ سے رونماہوا۔ اس کے متعلق باری تعالیٰ اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اے نبی وہ مٹھی خاک آپ نے نہیںپھینکی بلکہ ا ﷲ پھینکی تھی۔
الحاصل معجزہ حقیقت میں اﷲ کا فعل ہوتاہے۔ جو نبی کے ہاتھ پرظاہر کیا جاتاہے۔ مگر جو لوگ اس حقیقت سے صحیح طور پرواقف نہیں ہیں۔ وہ بہت بڑی گمراہی میں ہوتے ہیں۔ وہ اس