ضرورت تھی اور اس کیمتعدد صورتیں ہو سکتی تھیں۔ مثلاً کوئی ہوائی جہاز ڈاک لانے والے فرشتہ کو دیا جاتا یا کوئی دوسری سواری تیزرفتار مثل براق وغیرہ کے دی جاتی۔ غرض متعدد صورتیں تھیں۔ لیکن چونکہ سنت اﷲ یہ ہے کہ اگر ایک کام کے لئے متعدد راستے ہوں۔ تو ان میں سے وہ راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جو سب سے زیادہ آسان و مختصر ہو۔ اس بناء پر خداوند تعالیٰ نے ملائکہ کو پرداربنادیا تاکہ وہ خود اڑکر چلے جائیں۔ کسی سواری کی ضرورت ہی نہ ہو۔
کیونکہ یہ راستہ نہایت ہی مختصر اورآسان ہے۔ ڈاک لیتے ہی لے اڑے گا۔ جتنی دیر میں سواری کو پکڑکر سوار ہوتا۔ اتنی دیر میں پہنچ بھی جائے گا اور اس بات کی فکر بھی نہیں ہوگی کہ سواری کوکہاں باندھوں یاکہاں رکھوں۔ اس کے متعلق ارشاد ہے :’’الحمدﷲ فاطر السموات والارض جاعل الملئکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنیٰ وثلث وربع یزید فی الخلق مایشاء ان اﷲ علی کل شیئی قدیر (سورہ فاطر)‘‘{حمد اﷲ ہی کو لائق ہے جوآسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے۔ جن کے دو دو یا تین تین یاچار چار پر ہیں۔وہ پیدائش میں جو چاہے زیادہ کر دیتاہے بیشک اﷲ ہر چیز پرقادر ہے۔}
اس آیت میں پیغام سے مراد وحی کا لانا ہے رسولوں کی طرف اور کچھ چار پروں پر منحصر نہیں بلکہ حسب مصلحت و ضرورت زیادہ بھی دیئے جاتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے:’’یزید فی الخلق مایشائ‘‘میں کہ اﷲ تعالیٰ جس قدر چاہے پر زیادہ عطا فرمادیتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کو جو عموماً اس ڈاک کے لئے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے چھ سو پر عطاء فرمائے ہیں اور وہ اس قدر تیز رفتار ہیں کہ بجلی بھی کیا چیز ہوگی۔ آنکھ کی پلک مارنے سے بھی پہلے پہنچ جاتے ہیں۔
غرض ڈاک لانے کی جگہ چونکہ بہت دور تھی لہٰذا جلدی پہنچنے کے لئے یہ صورت اختیار کی گئی کہ ملائکہ کو پر عطاء کئے گئے اور سواری وغیرہ سے مستثنیٰ کر دیئے گئے اوریہی راستہ اس کام کے لئے تمام راستوں سے مختصر وآسان تھا۔
پیغمبروں کی شریعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ
گواصول میں تمام انبیاء علیہم السلام متفق تھے۔ مگر فروع کے اعتبار سے شریعتیں مختلف ہوتی رہیں۔ اسی اختلاف کا سبب صحیح طور پر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کو طرح طرح کے خدشات پیش آئے۔ کسی نے تو یہ کہا کہ اس سے خداوند تعالیٰ کا جہل لازم آتاہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ایک شریعت مقرر کرکے پھر اس کو کچھ عرصہ کے بعد منسوخ کر دینے سے معلوم