من یشاء من عبادہ‘‘{وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی یعنی اپنا حکم پہنچاتاہے۔} یعنی ہر کس و ناکس کو منہ نہیں لگاتا۔ بلکہ اپنا حکم نازل فرمانے کے لئے خاص مقربین کو منتخب فرماتاہے۔
ان تینوں مقدموں کو سمجھ لینے کے بعد ہر ذی عقل اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ خداوند تعالیٰ بعض ہستیوں کو منصب قرب عطاء فرماکر ان کے ذریعہ سے اپنی رضا و غیر رضا کا اعلان فرمائے اورجومقربین اس منصب کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اہل اسلام کی اصطلاح میں ان کو نبی اورسول کہا جاتاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہواکہ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی انسان پرفرض ہے اورانسان بغیر بتلائے خداوند تعالیٰ کی رضا وغیر رضا معلوم نہیں کرسکتا لہٰذا خدا تعالیٰ کا بتلانا ضروری ہوا۔ لیکن وہ ہر کس و ناکس کو براہ راست نہیں بتائے گا۔ اس لئے یہ اس کی شان کے خلاف ہے۔ لہٰذا س کام کے لئے بعض مقربین و خواص کو منتخب کرنا ضروری ہوا تاکہ ان کے ذریعہ سے خداتعالیٰ اپنی رضا وغیر رضا کی پوری تفصیل بندوں تک پہنچادے اورانہیں مقربین کو نبی ورسول کہاجاتاہے۔ اس تقریر سے ثابت ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کی ضرورت ہے۔
پیغمبروں کا معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے
منصب نبوت کے لئے جو حضرات منتخب ہوں گے۔ ان کا ظاہر وباطن میں مطیع و فرماں بردار ہونا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ ان سے ارادہ معصیت بھی ممکن نہ ہو۔ ارتکاب معصیت تو درکنار رہا کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے مخالفین کو اپنے دربار میں منصب قرب عطاء کرے۔ بلکہ منصب قرب ایسے شخص کودیا جاتاہے کہ جس کے متعلق یقین ہو کہ یہ ظاہر وباطن میں مطیع وفرمانبردار ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جس شخص کومنصب قرب دربار رب العزت کے لئے منتخب کیاجائے وہ خداوندتعالیٰ کا ظاہر وباطن میں ایسا مطیع و فرمانبردار ہو کہ اس سے ارادہ مخالفت بھی ممکن نہ ہو۔ مخالفت کرنا تو درکنار رہا، یہ بات ہرگز قرین قیاس نہیں ہے کہ خداوند کسی مخالف کو اپنے دربار میں منصب قرب عطاء فرمادے۔ لہٰذ انبی کا معصوم ہونا یعنی گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اسی کے متعلق ارشاد ہے ۔سورئہ انعام کی اس آیت میں: ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘{یعنی ہر کس و ناکس اس شرف کے قابل نہیں }اور جو معصوم ہستیاں اس منصب کے اہل ہیں۔ ان کو خداوند تعالیٰ ہی جانتا ہے۔کسی دوسرے کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔