موت آ جائے گی۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱،خزائن ج۱۱ص۳۱)
اﷲ تعالیٰ نے مرزاغلام احمد کی یہ خواہش پوری کرکے ان کے جھوٹ کو واشگاف کردیا ۱۹۰۸ء میںمحمدی بیگم کی حسرت میں مرزا قادیانی نے وفات پائی۔ جبکہ وہ سلطان محمد کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتی رہی۔
دل کے اندھے
اﷲ جھوٹوںاورسرکشی کرنے والوں کو بھی مہلت دیتاہے کہ و ہ اپنی حرکتوں سے باز آئیں۔ سچائی اور اﷲ کی فرمانبرداری اختیار کریں۔لیکن جھوٹ اورسرکشی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو اﷲ کا وہ قانون حرکت میں آتا ہے جو کذاب اورسرکش کے جعل اورفریب،جھوٹ،دھوکے، سرکشی اوربغاوت کو دن کے اجالے کی طرح واضح کر دیتا ہے کہ ہر آنکھ رکھنے والا دیکھ لے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی اسلام سے سرکشی جب حد سے بڑھ گئی۔ وہ جھوٹے گھمنڈ میں پیش گوئیوں پراتر آیا اوراپنی پیش گوئی کو دعویٰ کی دلیل اورسچائی کی کسوٹی بنایا تو اﷲ تعالیٰ نے ہر پیش گوئی کو جھٹلا کر دکھادیا کہ مرزاغلام احمدقادیانی کا دعویٰ جھوٹ اورسراسرجھوٹ ہے۔
عیسائی عبداﷲ آتھم ضعیف العمری کے باوجودپیش گوئی کے دن زندہ رہا۔ مرزا قادیانی کی زندگی میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری اورڈاکٹر عبدالحکیم خان زندہ رہے۔ ان کی موت مرزا قادیانی کے سامنے نہیں ہوئی۔نہ مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو طاعون وہیضہ کی بیماری لگی اور نہ عبدالحکیم خان کسی عذاب میں گرفتار ہوئے۔ اس کے برعکس ان دونوں کے سامنے مرزاغلام احمد قادیانی کی موت ہیضہ اور قے دست سے ہوئی۔
محمدی بیگم سے نکاح کو نہ ٹلنے والی تقدیر قرار دیا۔دھمکیاں دیں،لالچ دیا۔اپنی بیوی اور بڑے بیٹے پر جبر کیا۔ اس نکاح کو اپنے دعویٰ کی نشانی بتایا کہ محمدی بیگم ان بیاہی نہ سہی بیوہ ہوکر نکاح میں آئے گی۔ مرزا قادیانی اسی حسرت کو لئے مر گئے۔ محمدی بیگم نہ ان کے نکاح میں آئی اور نہ ان کے جیتے جی بیوہ ہوئی۔
اﷲ نے روز روشن کی طرح کھلا فیصلہ دے دیا کہ یہ شخص اور اس کی نبوت جعل اورجھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ دل کے اندھے ہیں جو اس کھلے،صاف اورروشن فیصلہ کو دیکھ کر یا سن کر عبرت نہ لیں اور مرزا قادیانی کے جال میں پھنسے رہیں۔ ایسوں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔
(۶)غلام احمد قادیانی کی عبرتناک موت
یاد رہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے دو اصحاب مولانا ثناء اﷲ امرتسری اورڈاکٹر میاں