جس سے روح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کا الہام اکثر ہوتارہاہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۴۸۰،۴۸۱،خزائن ج۱ص۵۷۱،۵۷۲)
مرزا قادیانی کے نت نئے دعوے اورفتنہ انگیزیاں
آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریز کے اسلام پر اعتراضات کے جواب لکھنے پر مرزا قادیانی کو شہرت ملی۔مرزا قادیانی نے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریز سے مناظرے شروع کئے۔ ان مناظروں میں مرزا قادیانی کے لب ولہجہ اورروحانی کمالات کے دعوؤں سے بعض بصیرت رکھنے والے اصحاب نے جان لیا کہ یہ شخص آگے چل کر بڑے بڑے دعوے بلکہ نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا۔لیکن مرزا قادیانی نے بڑے شد ومد کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ صرف ایک عام مسلمان ہیں اور کسی خاص روحانی درجہ یامقام کا کوئی دعویٰ نہیں ہے،کہا: ’’کیا ایسا بدبخت مفتری جوخود رسالت و نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیاایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ولکن رسول اﷲ و خاتم النّبیین کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے۔وہ کہہ سکتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے بعد رسول و نبی ہوں۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۷، خزائن ج۱۱ص ایضاً حاشیہ)
’’آنحضرت ﷺ نے باربار فرمادیاتھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اورحدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اورقرآن شریف میں جس کا لفظ لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ؐ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۸۴،خزائن ج۱۳ص۲۱۷)
مرزا قادیانی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جو بدبخت نبوت ورسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ قرآن شریف کو جھٹلاتا ہے۔رسول اﷲ ﷺ کے آخری نبی اوررسول ہونے کو جھٹلاتاہے۔ ایسا شخص مسلمان نہیںرہتا۔ کافر ہوجاتا ہے۔ مگر انہوںنے بالآخر یہی کیا۔نبوت ورسالت کا دعویٰ کرکے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ اس شخص کا اور اس کے ماننے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کافر ہیں،مسلمان نہیں ہیں۔
غلام احمد قادیانی نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں میں رسول ﷺ سے بڑی گہری عقیدت ہے اور آپ ؐ کے خاتم النّبیین ہونے پر بڑامضبوط ایمان ہے۔اس لئے غلام احمدقادیانی نے آہستہ آہستہ درجہ بدرجہ اپنے دعوے کے لئے راستہ بنانا شروع کیا۔مسلمانوں میں انگریزوں کی تائید و