محرومی سے آفتاب نبوت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ خداوند تعالیٰ نے حضورﷺ کو قرآن شریف میں سراج منیر فرمایا ہے اورآفتاب کو بھی سراج سے تعبیر فرمایاہے۔ جس سے ظاہر ہواحضور اکرم ﷺ کو بمنزلہ آفتاب قراردیا ہے یا یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر چمگادڑ آفتاب کو نہ دیکھ سکے توکیا یہ آفتاب کا قصور ہے؟ہرگز نہیں۔جیسا کہ شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
اختلاف فطرت کے اختیار کرنے کی وجہ
جب تمام لوگ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے اس وجہ سے مستفید نہیں ہوتے کہ سب کی فطرت مساوی نہیں ہے تو خداوند تعالیٰ نے فطرتیں مختلف کیوں بنائیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ محروم رہے۔ ایسا کیوں نہیںکیا کہ سب کی فطرت یکساں بناتے تاکہ سب کے سب تعلیم سے برابر فائدہ اٹھاتے؟
اس کے متعلق یہ گذارش ہے کہ صورتیں دو تھیں۔ ایک یہ کہ تمام چیزوں کو مختلف الفطرت بنایا جائے اور دوسری یہ کہ تمام چیزوں کو مساوی الفطرت بنایاجائے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ چونکہ حکیم ہے۔ لہٰذا اس نے دونوں صورتوں میں سے و ہ صورت اختیار کی جو بندوں کے لئے زیادہ مفید تھی۔ یعنی اختلاف فطرت والی صورت کو اختیار کیا اور تمام چیزوںکو مختلف الفطرۃ بنادیا۔ جیسا کہ مشاہدہ سے واضح ہے کیونکہ سب چیزوں کی فطرت کو یکساں اور متحد بنانے کی صورت میں کئی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں۔
مثلاً اگرزمین کے قطعوں کو مختلف الفطرۃ نہ بنایا جاتا بلکہ تمام قطعے متحد الفطرۃ ہوتے تو پھر زمین ایسی نہ ہوتی کہ کہیں اونچی اور کہیں نیچی۔ کہیں خشکی کہیں مکانات و درخت کہیں صاف میدان بلکہ یا تو سب پر پانی ہوتا تو اس صورت میں زمین پر رہنا ہی ممکن نہ رہتا۔ یا ہر جگہ درخت ہوتے تو چلنا پھرنا ہی دشوار ہو جاتا۔ بلکہ رہنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ یا کہیں بھی درخت نہ ہوتے تو سایہ کا انتظام نہ ہوتا اورلکڑیاں جلانے و مکان بنانے کے لئے میسر نہ ہوتیں۔ غرض تمام صورتوں میں دقتیں تھیں۔ لہٰذا یہی بہتر ہے کہ کہیں پانی ہے۔ کہیں خشکی ہے۔ کہیں درخت ہیں کہیں صاف میدان اور اگر ایسا ہی انسانوںو میں اختلاف فطرت نہ ہوتا تو پھر تمام انسانوں میں کوئی امتیاز ہی نہ باقی رہتا۔ کیونکہ پھر تو سب کے قد بھی برابرہوتے ۔ رنگ بھی ایک ہوتاغرض کوئی امتیاز نہ ہوتا۔ تو ایک دوسرے کی پہچان ہی ناممکن ہوتی اور پھر یہ بھی نہ ہوتا کہ ایک دوسرے کے نطفہ سے پیدا