معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ یہ خط تم نے کس کو لکھا ہے اور کیا لکھاہے۔ بابوصاحب نے بہت سے حیلے بہانے کئے اورعذرات پیش کئے مگر تریاہٹ کے سامنے کچھ پیش نہ گئی۔ بلکہ ان عذرات نے بیوی کو اور برافروختہ کردیا۔ آخر بابو صاحب نے خط کھولا اور یوں پڑھنا شروع کیا۔ بحضور جناب اہوں ارسال ہیں۔ اہوں اہوں دعا کے واسطے برائے کتب دس روپے۔ برائے چھاپہ خانہ تین روپے ۔ برائے توسیع مکان اہوں۔
بیوی… میاں گاماں آج تمہارے حلق میں نزلہ کا بہت زور ہے۔ بابو صاحب نہیں گھسیٹی جی اہوں۔ اہوں روپیہ لنگر خانہ کے واسطے پانچ روپے برائے خط وکتابت متعلق مذہبی تحقیقات چندہ اخبارات ارسال ہو چکا ہے اوربہشتی مقبرہ کا کا چندہ انشاء اﷲ! بماہ آئندہ بھیجا جاوے گا۔
بیوی… بس بابو صاحب! ہاں بس۔
بیوی… آپ نے یہ خط پڑھا تو سہی مگر موٹی موٹی رقمیں نزلہ کے نیچے دباگئے۔ اچھاخیر۔مگر خط کی پشت پرتمہاری انگلیوں کے نیچے جوتی کا کیا ذکر ہے۔
بابوصاحب… ورق الٹ کر اور کھسیانے سے ہوکر۔ نہیں جوتی کا کچھ ذکر نہیں۔ یہ پیلی بھیت کے ایک بنئے آڑھتی کا نام ہے۔ جوتی پرشاد۔
بیوی… اس خط میں ایک ہندو کا کیا ذکر آگیا۔
بابو صاحب… اس سے کچھ منگوایاتھا۔
بیوی… کیا منگوایاتھا؟
بابو صاحب… چاول۔
بیوی… کس کے واسطے اور کتنے؟
بابو صاحب… جھنجھلاکر،معلوم نہیں تم عورتوں کاخمیر خدا نے کس چیز سے بنایا ہے۔ ہر ایک بات کو کھودتی ہو۔ خواہ تمہارا اس سے کچھ تعلق ہونہ ہو۔ اگر تمہارا اس بات کے معلوم کئے بغیر دم نکل جائے گا تو سن لو اور جوکرنا ہے کرلو۔ حضرت صاحب کے واسطے یہ چاول منگوائے جاتے تھے۔ کیونکہ وہ معمولی اس ملک کے چاول پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان چاولوں کا ڈیڑھ سو روپیہ بقایا میرے ذمہ چلا آرہاتھا۔ میں نے اس خط میں لکھ دیا ہے کہ جوتی پرشاد کی رقم میں نے ادا کر دی ہے۔
بیوی… تم تو کہا کرتے ہو کہ مرزا قادیانی آنحضرت ہی تھے۔ کوئی اور نہ تھے۔ پھر جو کیوں نہیں کھاتے تھے؟