M
التماس مصنف
میں مصنف اس کتاب کا حلفاً بیان کرتا ہوں کہ یہ کتاب میں نے محض اسلام اور اہل اسلام کے درد سے لکھی ہے اور نہایت عجزوادب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کو پڑھتے ہوئے ذہن کو تعصب سے پاک کر لیں۔ پھر اگر اس کو گمراہی سے بچانے والی اور راہ راست پر قائم رکھنے والی پائیں تو میرے حق میں عاقبت بخیر کی دعا کریں۔ مصنف!
دیباچہ
شہرلندن کے جنوب مشرق ٹوکیو دارالخلافہ جاپان کے غرب، دمشق کے شرقی منارہ اور قریباً من السیالکوٹ یعنی عین شہر سیالکوٹ میں ایک بابو صاحب رہتے تھے۔ جو سسرال کی طرف سے بھی اچھے نسب سے تھے۔دین سے بہت رغبت رکھتے تھے۔مگر دینی تعلیم سے بوجہ نو تعلیم یافتہ ہونے کے کورے تھے۔ موٹی عقل والے مگر مالدار تھے۔ بیوی ان کی ایک پرانے تعلیم یافتہ کی بیٹی اور اچھی لکھی پڑھی تھی۔ نام ان کے کچھ اور تھے۔ لیکن پیار سے ایک دوسرے کو گاماں اور گھسیٹی کہہ کر پکارتے اور جواب دیتے تھے۔ مکان رہائشی خاصا وسیع تھا۔ برآمدہ کے مشرقی کنارے پر ایک مختصر سا کمرہ تھا۔ جس کا دروازہ برآمدہ میں تھااور تینوں طرف شیشوں کی کھڑکیاں تھیں۔ جنوبی کھڑکی مکان کے غسل خانہ میں کھلتی تھی۔ اس کمرہ میں ایک مختصر میز ایک کرسی، ایک الماری کے سوا ایک شیشم کا صندوق تھا۔ جس کو ایک بڑا وزنی قفل لگا رہتا تھا اور اس پر جلی حروف میں پرانے کاغذات لکھا ہوا تھا۔ بابو صاحب محکمہ بار کماسٹری میں ملازم تھے۔
ایک دن بیوی نے معلوم کیا کہ وہ اپنے ہاتھ کی انگوٹھی غسل خانہ میں بھول آئی ہیں۔ غسل خانہ میں جو گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بابو صاحب نے وہ صندوق کھولا۔ اس میں ایک پلندہ نوٹوں کا نکالا۔ اس میں سے چند نوٹ نکال کر باقی اسی طرح صندوق میں مقفل کرکے میز پرآبیٹھے۔ نوٹوں کو ایک خط میں لپیٹ کر اور لفافہ میں ڈال کر اس پر مکتوب الیہ کا پتہ لکھ رہے تھے کہ بیوی اوپر آگئیں اور بولیں کہ کیا آج کھانا نہیں کھاؤ گے؟ بابو صاحب نے جھٹ اس لفافہ کو پیڈ پر الٹ دیا اور اس پرہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔ گویا پتہ کوخشک کررہے ہیں اور کہنے لگے چلو کھانا نکالو میں آیا۔ بیوی نے لفافہ پر موضع قادیاں دیکھ لیا تھا۔ کہنے لگیں بہت خوب۔ مگر کھانے سے پہلے میں