بابو صاحب… چلو چلو بکواس نہ کرو۔ کھانانکالو۔ بیوی نے جس کے غصے کی انتہاباقی نہ رہی تھی۔ کانپتے کانپتے ہاتھوں سے کھانا نکالا اور بابو صاحب کے آگے رکھ کر یوں گویا ہوئیں یہ میرے ہاتھ کا آج آخری کھانا کھاؤ۔ بابوصاحب نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اورخاموشی سے کھانازہر مار کرتے رہے۔کھانے سے فارغ ہوکر کہنے لگے۔ یہ کیا معاملہ ہے کہ تم اس قدر برافروختہ ہوگئی ہو۔ اگر روپیہ قاضیاں بھیجنے پرتم ناراض ہو تو تمہیں خوب معلوم ہے کہ میں اپنی پوری تنخواہ اور سفرخرچ تمہارے حوالے کردیتا ہوں اور کبھی نہیں پوچھتا کہ تم نے کیا خرچ کیا اورکہاں کیا اور جوکچھ میں قاضیاں بھیجتا ہوں وہ اپنی بالائی آمدنی سے بھیجتاہوں۔ اس کی بابت تمہیں بھی نہیں پوچھناچاہئے کہ کیا آمدنی ہوئی اورکہاں خرچ ہوئی۔
بیوی… تمہارا یہ نوٹوں کا پلندہ اگر بالائی یعنی ناجائز آمدنی کاہے تو ناپاک شے ہے۔خدا اس میں سے ایک پیسہ بھی میر ے نصیب نہ کرے اور جدھر جانا چاہتا ہے جاوے۔ اس میں کیا شک ہے کہ تم مرزا قادیانی کونبی ماننے کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو۔ پس جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ تم مسلمان ہو۔ میرا تمہارا بیوی خاوند والا تعلق نہیں ہو سکتا اور نہ میں تمہارے گھر رہ سکتی ہوں۔
بابو صاحب… اس میں کچھ شک نہیں اور میں آج تم سے صاف صاف کہے دیتا ہوں کہ میں حضرت اقدس جناب مرزا قادیانی بموجب ان کے اپنے فرمان امام الزمان، مجدد، مسیح موعود،مہدی معہود اور بموجب فرمان خداوندی نبی برحق مانتا ہوں۔ فرمان خدا وندی سے میری مراد یہ ہے کہ مرزا قادیانی کے الہامات میں خدا نے ان کو نبی کہہ کر پکارا ہے اور میرے تمہارے گزارہ کی اب صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس معاملہ پربحث کی جاوے۔ بحث سے اگر حضرت اقدس توبہ معاذ اﷲ،توبہ معاذ اﷲ جھوٹے ثابت ہوںتو میں تمہارا مذہب اختیار کرلوںاوراگر خدا ان کی سچائی ثابت کرے جو ضرور پکارے گا تو تم میرا مذہب اختیار کرو۔
بیوی… بالکل ٹھیک۔ مجھے یہ بات بڑی خوشی سے منظور ہے۔ میں خدا سے اور کیا مانگتی تھی۔مگر بحث ایک منصف کے سامنے ہونی چاہئے اور وہ ایسا شخص ہو جس کو ہم دونوں میں سے کسی کے مذہب سے تعلق نہ ہو۔ دوم عالم ہو اور سوم میرا اس سے پردہ نہ ہو۔
بابو صاحب… اچھا تو تم ہی بتاؤ ایسا شخص کون سا ہے؟
بیوی… تھوڑی دیر ماتھے پرہاتھ رکھ کر، قاضی احسان اﷲ بی اے مولوی فاضل، مذہب کے رو سے شیعہ۔