اوّل… وجہ توآپ وہ سمجھ لیں جو اسی رسالہ الوصیت میں مرزا قادیانی نے ظاہر کر دی ہے۔ یعنی بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھ کر اس میں مدفون ہونے کے خواہش مندوں سے ٹکے وصول کرنے۔ چنانچہ اپنے دیگر الہامات بیان کرتے کرتے (ص۱۵،خزائن ج۲۰ص۳۱۶)پرپہنچ کر پھر لکھتے ہیں:’’اورفرمایا کہ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرور ہے کہ میری وفات سے پہلے دنیا۱؎ پر کچھ حوادث پڑیں اور کچھ عجائبات قدرت ظاہر ہوں… پھر ایک جگہ مجھے ایک قبردکھلائی گئی۔ کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی۔ اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی۔تب مجھے کہاگیا کہ یہ تیری قبر ہے اورایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھاگیا اورظاہر کیاگیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں… اورچونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے۔ بلکہ یہ بھی فرمایا:’’انزل فیھا کل رحمت‘‘یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں۔ اس لئے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا دیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور راست بازی کامل کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں۔ سو وہ تین شرطیں ہیں…(۱) پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے۔ وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے…(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا۔ جو یہ وصیت کرے۔ جو۲؎ اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کی اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے۔
قاضی صاحب… مگر یہ تو مرزا قادیانی نے اسلام میں ایک بالکل نئی بات نکالی۔
نووارد… اس اعتراض کا جواب مرزا قادیانی نے (الوصیت ص۱۹،خزائن ج۲۰ص۳۲۱)پر بطور حاشیہ دے دیا ہے۔ لکھتے ہیں’’کوئی نادان اس قبرستان اوراس انتظام کو بدعت میںداخل نہ سمجھے۔ کیونکہ یہ انتظام حسب وحی الٰہی ہے۔ انسان کا اس میں دخل نہیں۔‘‘ سن لیا؟
۱؎ جھوٹے نبیوں والی چالاکیاں۔کیا دنیا میں کوئی ایسا بھی وقت گزرتا ہے کہ اس میں کوئی حادثہ واقع ہوتا ہو۔
۲؎ ہندوستانی ایسی اردوبولنے والوں کو پنجابی ڈھگے کہا کرتے ہیں۔