ہیں۔ گویا ایک رسالہ کو اشتہار کی شکل میں چھاپا ہے۔ اس کے عنوان پر قوس کی صورت میں بڑے جلی خط میں لکھا ہوا ہے:’’ہماری جماعت کو لازم ہے کہ اس پیشین گوئی کو خوب شائع کریں اور اپنی طرف سے چھاپ کر مشتہر کریں اور یاداشت کے لئے اشتہار کے طور پر اپنے گھر کی نظرگاہ میں چسپاں کریں۔ ‘‘ بابو صاحب اگر اس اشتہار کو بہ تمام وکمال اگر آپ پڑھنا چاہیں تو فرصت کے وقت پڑھیں۔ میں اس کے صرف چنداقتباسات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شروع یوں ہوتا ہے:
’’مجھے اس تحریر کے لئے اس بات نے مجبور کیا ہے کہ میں مامور ہوں کہ امر معروف اور نہی منکر کروں اور سننے والوں کو ان امور پر قائم کروں جن سے ان کا ایمان قوی اور معرفت زیادہ ہواور صراط مستقیم پر قائم ہو جاویں۔واضح ہو کہ میں نے اس ہفتہ کے اخبار عام میں اس کے پہلے کالم میں یہی پڑھا ہے کہ بعض کوتہ اندیش لوگوں نے میرے فرزند مبارک احمد کی وفات پر بڑی خوشی ظاہر کی ہے۔ بلکہ دوسرے بعض اخباروں میں بھی بڑے زور سے اس واقعہ کو ظاہر کرکے یہ رنگ اس پرچڑھایا ہے کہ گویا ان میں سے کسی کا مباہلہ میں فتح یاب ہونا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ زیادہ لکھنانہیں چاہتے۔کیونکہ جھوٹ کی سزا دینے کے لئے خداتعالیٰ کافی ہے۔ واضح ہو کہ میں نے کسی سے ایسا مباہلہ نہیں کیا۔ جس سے کسی دوسرے فریق کی اولاد کو اس طرح پر معیار صدق و کذب بنایا جائے کہ اگر اس فریق کالڑکا مر گیا تو وہ جھوٹا ٹھہرے گا۔ بلکہ میں ہمیشہ یہی چاہتا ہوں کہ وہی شخص نابود ہو جس کا گناہ ہے۔ جس نے خدا پر افتراء کیا ہے یا صادق کو کاذب ٹھہراتا ہے۔‘‘ اور بابو صاحب اب تو یہ عذر بھی مرزا قادیانی کا باقی نہ رہا۔ کیونکہ اس تحریر کے بعد خودمولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں جن سے ان نے مباہلہ کیاتھا،فوت ہوگیا۔ آگے لکھتا ہے کہ ’’لڑکے کی موت کی خبردو دفعہ مجھے خدا نے دی تھی اور یہ الہام ہواتھا کہ ’’انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا‘‘یعنی اے اہل بیت!خدا تمہیں ایک امتحان کے ذریعہ سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ حق پاک کرنے کا۔
اس بارے میں ان دنوں میں کچھ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے وہ پیشین گوئیاں لکھتا ہوں۔ چاہئے کہ میری جماعت یاد رکھے اوراس کواپنے گھروں کے نظارہ گاہ جگہوں پر چسپاں کریں اور اپنی عورتوں اورلڑکوں کو اس سے اطلاع دیں اورجہاں تک ممکن ہو نرمی اور آہستگی سے اپنے واقف کاروں کو اس امر پر مطلع کریں۔ کیونکہ یہ دن آنے والے ہیں اور خدا نے سب کچھ دیکھا ہے اور اب وہ ہم میں اور ہمارے ان مخالفوںمیں جو تکفیر اورگالیوں سے باز نہیں آتے، فیصلہ کرے گا۔ وہ حلیم ہے۔ مگر اس کا غضب سب سے بڑھ کر ہے اور وہ سزا دینے میں دھیما ہے۔ مگر