کانگڑہ رہ کر سکونت ہشیار پور میں اختیار کی۔ ایک مدت وہاں رہ کر۲۰؍ستمبر ۱۸۸۷ء آپ نے انتقال فرمایااور وہیں مدفون ہیں۔
بابوصاحب… اس فرقے کے رد کا شوق آپ کو کیونکر پیدا ہوا۔
نووارد… ہم تین بھائی ہیں۔ مجھ سے چھوٹا احسان الحق انبالہ چھاؤنی میں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ اس کو چنداں مذہب کا خیال نہیں۔ میرے بڑے بھائی احمد حسین شہرا نبالہ میں پولیس سے پنشن پاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا چال چلن بہت اچھا رکھا۔ یہاں تک کہ تمام عمر حقہ بھی نہیں پیا۔ لیکن مرزا قادیانی کے بڑے ثناء خوان اوراٹھنا بیٹھا ان کا اور میل ملاپ مرزائیوں سے آخر باپ کی تاثیر نہیں منکر بھی تو کسی بیٹے میں ہونی چاہئے تھی۔میں نے اپنی عمر مرزا قادیانی اور ان کے مخالفین کی کتابیں پڑھنے میں صرف کردی۔ دماغ صرف کردیا۔ آنکھیں صرف کر دیں۔ روپیہ اتنا صرف کیا کہ جس قیمت پر کوئی کتاب ملی۔ میں نے خریدی۔ چنانچہ انجام آتھم ڈیڑھ روپے قیمت کی کتاب میں نے انجمن احمدیہ مردان سے۲۰ روپیہ میں خریدی اورآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مرزا قادیانی مذاہب۱؎ باطلہ کی کتابیں پڑھ کر دہریہ ہوگئے تھے اور ان کو یقین ہوگیاتھا کہ مذہب پیغمبری الہام اوروحی یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ روپے کی ان کو سخت ضرورت تھی۔ اس لئے انہوں نے جھوٹی نبوت کا پیشہ اختیار کیا۔ مگر اسلام کی آڑ میں پیشین گوئیوں کو اپنا معیار بنایا۔ پیشین گوئیاں موت کی شروع کیں۔ اس میں دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ موت ہی ایک ایسی بات ہے کہ ضرور واقعہ ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ وعید کی پیشین گوئی صدقہ خیرات اور ڈر جانے سے ٹل جاتی ہے۔ اس کام کے واسطے علمی معلومات کے علاوہ جھوٹ بولنے اورحیا ترک کرنے کی بھی ضرورت انہوں نے محسوس کی اور اس لئے آپ نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ جھوٹ بولنا بڑا بھاری گناہ ہے۔ جھوٹ بولنا ایک قسم کا شرک ہے۔جھوٹ بولنا گوہ کھانے کے برابر ہے۔ یہ اس بات کی ناکہ بندی کہ خواہ کتنا بھی میں جھوٹ بولوں۔ میری طرف سے جھوٹ بولنے کا کسی کو گمان ہی نہ ہو اورحیا کا برقعہ بالکل منہ سے اتار پھینکا۔ چنانچہ ایک شخص کی نسبت آپ لکھتے ہیں کہ اگرچہ وہ میعاد میں نہیں مرا۔ مگر مر تو گیا۔
۱؎ (براہین احمدیہ ص۹۵ خزائن ج۱ص۸۵)پرمرزا قادیانی لکھتے ہیں :نظم !
بہرمذہبے غور کردم بسے … شنیدم بدل حجت ہرکسے
بخو اندم زہر ملتے دفترے … بدیدم زہر قوم دانشورے
ہم از کودکی سوئے ایں تاختم … دریں شغل خودر ابینداختم
جوانی ہمہ اندریں باختم … دل از غیر ایں کار پرد ختم