لا نبقی لک من المخزیات ذکر اقل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا وامانرینک بعض الذی نعدھم اونتو فینک تموت واناراض منک جاء وقتک ونبقی لک الایات باھرات جاء وقتک ونبقی لک الایات بینات قرب ماتوعدون واما بنعمۃ ربک فحدث انہ من یتق اﷲ ویصبرفان اﷲ لایضیع اجرالمحسنین‘‘ (ترجمہ)تیری اجل قریب آگئی ہے اورہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام ونشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو۔تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہے گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دور اوردفع کردیںگے اورکچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیںگے۔ جن کے بیان سے تیری رسوائی مطلوب ہو اور ہم اس بات۱؎ پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہماری پیشین گوئیاں ہیں۔ ان میں سے تجھے کچھ دکھادیں۔ یا تجھے وفات دے دیں۔ تو اس حالت میں فوت ہو گا۔ جو میں تجھ سے راضی ہوںگی اور ہم کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیںگے۔ جو وعدہ کیاگیا وہ قریب ہے۔ اپنے رب کی نعمت کا جو تیرے پر ہوئی۔لوگوں کے پاس بیان کر۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرے اورصبر کرے۔توخدا ایسے نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:’’اس جگہ یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ہم تیری نسبت ایسے ذکر باقی نہیں چھوڑیںگے۔ جو تیری رسوائی اورہتک عزت کے موجب ہوں۔ اس فقرہ کے دو معنے ہیں۔ (۱)اوّل یہ کہ ایسے اعتراضات کو جو رسوا کرنے کی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں۔ ہم دور کردیںگے اور ان اعتراضات کا نام ونشان نہ رہے گا۔(۲) دوسرے یہ کہ ایسے شکایت کرنے والوں کو جو اپنی شرارتوں کو نہیں چھوڑتے اوربدذکر سے باز نہیں آتے۔ دنیا سے اٹھالیںگے اور صفحہ ہستی۲؎ سے معدوم کر دیں گے۔ تب ان کے نابود ہونے کی وجہ سے ان کے بیہودہ اعتراض بھی نابود ہو جائیںگے۔ پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ نے میری وفات کی نسبت اردو زبان میں مندرجہ ذیل کلام کے ساتھ مجھے مخاطب کرکے فرمایا:’’بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا۔ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔‘‘
۱؎ آنحضرت کی وحی یعنی قرآن کی نقلیں لگارہا ہے۔ ہائے توبہ ہائے توبہ!
۲؎ واقعی جو شخص اس نبی پر ایمان نہ لائے۔اس کی نجات غیر ممکن ہے۔