ایک جملہ معترضہ
ہر ایک سمجھدار انسان جب کسی سے کلام کرتا ہے تو مخاطب کی مادری زبان میں کرتاہے تاکہ اس پر اس کا سمجھنا آسان ہو۔ اگر متکلم مخاطب کی مادری زبان نہ بول سکتا ہو تو وہ اپنی مادری زبان میں کلام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر مخاطب متکلم کی مادری زبان نہ سمجھتا ہو تو پھر وہ کوئی زبان اختیار کرتا ہے۔ جس کو دونوں بول اور سمجھ سکتے ہوں۔ مگر مرزا قادیانی کے ساتھ ان کے خدا کا کلام کرنے کا طریقہ جہان سے نرالا ہے۔ ابھی عربی میں کلام کررہا ہے اوروہ بھی قرآن سے مدد لے کر۔ ابھی بلاوجہ اردو میں شروع ہوگیا اور طرفہ یہ کہ کبھی دجال کی زبان میں حالانکہ یہ تینوں زبانیں مرزا قادیانی کی مادری نہیں۔ اگر وہ چین کے تھے۔ تو ان کی زبان چینی تھی۔ اگر فارس کے تو فارسی اوراگر دمشق کے شرقی منارہ یعنی اسلام پور(قادیان کا اصلی اورپورانام) قاضی ماجھی کے تو پنجابی مگر بہت اکھڑ۔ جملہ معترضہ ختم۔
اچھا بابوصاحب!آپ کومعلوم ہے کہ اس وحی مقدس کے نزول کے وقت سال ۱۹۰۵ء مرزا قادیانی پر ہتک آمیز اعتراض کرنے والے کون کون تھے؟
بابوصاحب… مجھے پوری طرح معلوم نہیں۔
نووارد … مجھ سے سنئے!
۱… یہی ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب جو بموجب مرزا قادیانی کے اشتہار’’خدا سچے کا حامی ہو۔‘‘ (ملحقہ حقیقت الوحی، خزائن ج۲۲ ص۴۰۹تا۴۱۱) کے مرزا قادیانی کو کذاب، مکار، شیطان، دجال،شریر، حرام خور، خائن، شکم پرست،نفس پرست، مفسد اور مفتری کہتے تھے اور ان کے خلاف لیکچر دیتے اور ہتک آمیز تصانیف شائع کرتے تھے۔ جن میں مرزا قادیانی کو کانا دجال کے نام سے تعبیر کرتے تھے۔
۲… مولوی محمدحسین بٹالوی جن کی نسبت مرزا قادیانی فرماتے ہیں:’’ڈپٹی کمشنر نے اپنے چٹھہ انگریزی میں لکھ دیا کہ محمد حسین مرزے کا سخت دشمن ہے۔‘‘ (البریہ ص۱۷، خزائن ج۱۳ص۳۶)
’’مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جرأت کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دجال رکھا اورمیرے پر فتویٰ کفر لکھواکر صدہا پنجاب ہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہود اورنصاریٰ سے بدترقراردیا اورمیرانام کذاب مفسد، دجال،مفتری، مکار،ٹھگ، فاسق، فاجر، خائن رکھا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۱، خزائن ج۲۲ص۴۵۳)
’’جس قدر اس شخص نے مجھے گندی گالیاں دیں اورمحمد بخش جعفرز ٹلی سے دلائیں اور