نووارد… قاضی صاحب ڈاکٹرصاحب نے حکیم نور الدین کے ذریعہ مرزا قادیانی کو اطلاع دی کہ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کوخدا نے مجھے بذریعہ الہام اطلاع دی ہے کہ مرز ا قادیانی آج سے تین سال کے اندر ہلاک ہو جائیںگے۔ امام الزمان کو معہ اس کے الہام کنندہ کے یہ لفظ الہام نہایت سخت اور ناقابل برداشت معلوم۱؎ ہوا۔
اس لئے مرزا قادیانی نے اس اشتہارمیں لکھا کہ اگرمیں ڈاکٹر صاحب کے الہام کے مطابق مروں تو وہ موت میرے لئے ایسی ہو گی گویا میں آگے بھی لعنت اور پیچھے بھی لعنت لے کر مرا اور الہام کنندہ نے فوراً سے پہلے الہام اتار دیا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم جھوٹا ہے اور تو صادق ہے۔کاذب صادق کی زندگی میں مرے گا ورنہ دنیا کے کل کاروبار خراب ہو جائیںگے۔
بابو صاحب… قاضی صاحب اوّل تو میں اس الہام کی بابت خود تسلیم کرتا ہوں کہ یہ مرزا قادیانی نے غصہ میں اتارا۔ دوسرے یہ کہ مرزاقادیانی نے بیان کردیا تھا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ میری موت قریب ہے۔ اس کی خبر ڈاکٹرعبدالحکیم نے پاکر شائع کر دیا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا قادیانی۱۲؍جولائی۱۹۰۶ ء سے تین سال کے اندر فوت ہوجائیںگے۔ یعنی آپ کا وصال ہو جائے گا۔
قاضی صاحب… آپ نے یہ کیا فرمایا؟ قرآن شریف میں جہاں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ:’’وممن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذبااوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیئی (پ۷ع۱۷)‘‘یعنی اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔ جو خدا پر افتراء کرے یا کہے کہ مجھے وحی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس کی طرف وحی نہ ہوتی ہو۔ تو وہاں خدا نے کسی غصیل کو معافی بھی دی ہے؟ مفتری علی اﷲ کو تو خدا سب سے بڑاظالم قرار دیتا ہے اورعام ظالم پر اﷲ لعنت بھیجتا ہے ۔ تو مفتری علی اﷲ کتنی لعنتوں کا مستحق ہونا چاہئے؟اور دوسرا عذر آپ کا بھی فضول ہے کہ مرزا قادیانی کے موت کے الہام کی خبر پاکر ڈاکٹر صاحب نے کہہ دیا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا قادیانی تین سال کے اندر فوت ہو جائیںگے۔ کیونکہ اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے اس اپنے الہام کا ذکر تک نہیں کیا اور اس میں کچھ شک ہے کہ مرزا قادیانی کو موت کا الہام پہلے ہوا اورڈاکٹر عبدالحکیم خان کی الہامی میعاد کے اندر نہ مرنے کا بعد میں اور جائے تعجب ہے کہ مرزا قادیانی کو جو موت کا الہام ہوا اس میں کوئی دن یا مہینہ یا سن یامیعاد نہ ہو، بالکل بے معنے ہو اور ایک غیر شخص کومرزا قادیانی کی
۱؎ یہاں مرزا قادیانی امام الزمان کو اپنا وہ قول بالکل بھول گیا کہ ایک متدین عالم کا یہ فرض ہوناچاہئے کہ الہام اور کشف کا نام سن کر چپ ہو جائے اور لمبی چون وچرا سے باز آجائے۔
(ازالہ اوّل ص۱۴۸، خزائن ج۳ ص۱۷۵)