نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں:’’خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اورعلامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۔ مگر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا۔ ’’رب فرق بین صادق وکاذب انت تری کل مصلح وصادق۔‘‘ (حقیقت الوحی اشتہار خدا سچے کا حامی ص۲، خزائن ج۲۲ ص۴۱۰،۴۱۱)
اشتہار تو ختم ہوگیا اس کے نیچے کچھ نوٹ ہیں۔کیا وہ بھی پڑھوں؟
نووارد… ضرور۔
قاضی صاحب… ’’خدائے تعالیٰ کا یہ فقرہ کہ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ یہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خان کے اس فقرہ کا رد ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ گویا میں کاذب ہوں اوروہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر اورخدائے تعالیٰ اس کے رد میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ذلت کی موت، ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوتو دنیا تباہ ہو جائے اورصادق اورکاذب میں کوئی امر فارق نہ رہے۔‘‘
٭… ’’اس فقرہ میں عبدالحکیم مخاطب ہے اور فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہوگا۔‘‘
٭… ’’یعنی تو نے یہ غور نہ کی کہ اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں امت محمدیہ کے لئے کسی دجال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اورمجدد کی۔‘‘
٭… ’’یعنی اے میرے خدا صادق اورکاذب میں فرق دکھلا۔ تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے؟ اس فقرہ الہامیہ میں عبدالحکیم خان کے اس قول کا رد ہے۔ جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھہراتا ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تو صادق نہیں ہے۔ میں صادق اورکاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا۔‘‘ (المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود قادیانی ۱۶؍ اگست ۱۹۰۶ء مطابق ۲۴ جمادی الثانی ۱۳۲۴ھ، حقیقت الوحی اشتہار خدا سچے کا حامی ص۲، خزائن ج۲۲ ص۴۱۱)
قاضی صاحب… بابو صاحب مرزا کے سچے اور جھوٹے ہونے کا جب بموجب ان کے الہام کے خدا نے ہی فیصلہ کردیاتو نعوذباﷲ خدا کے فیصلہ کے سامنے میرا فیصلہ کیا وقعت رکھے گا۔ خدا نے فیصلہ کردیا کہ مرزا جھوٹا تھا اور جو کچھ وہ کہتاتھا سب جھوٹ تھا۔ برخلاف اس کے ڈاکٹر عبدالحکیم خان سچا تھا اورجو کچھ اس نے کہا سب سچ تھا۔ مگر مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کے اس فقرہ کا مطلب نہیں سمجھا کہ ’’خدا مجھ کو ایسی ذلت کی موت نہیں دے گا کہ میرے آگے بھی لعنت ہو اور پیچھے بھی۔‘‘