میرے فتنہ سے نجات پائیں اور اگر میں۱؎ ایسا نہیں ہوں جیسا کہ میاں عبدالحکیم خان نے سمجھا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا مجھ کو ایسی ذلت کی موت نہیں دے گا کہ میرے۲؎ آگے بھی لعنت ہو اور پیچھے بھی۔‘‘ (حقیقت الوحی اشتہار خدا سچے کا حامی ص۱،۲، خزائن ج۲۲ ص۴۰۹،۴۱۰)
گاموں… اچھا بابو جی مرجا انہاں تناں سالاں وچ مویا کہ بچھوں۔
نووارد… (ایک بڑا قہقہہ لگاکر)گاموں!میں ڈرتا ہوں کہ بابو صاحب اس سوال کے جواب میں ناراض ہو جائیںگے۔ کیونکہ اس میں ایک بڑا سخت کلمہ آگے پیچھے لعنت لے کر مرنے کا ہے۔
بابوصاحب… مگر اس نسبت تو میں پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ یہ سب کچھ مرزا قادیانی نے غصہ کی حالت میں کہا۔
نووارد… گاموں مرزا قادیانی اسی تین سال کی میعاد میں ہی فوت ہوئے،۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو۔
گاموں… اتے ایہ ڈاکٹر کدوں مویا؟
نووارد… یکم جولائی۱۹۲۰ء کو یعنی مرزا قادیانی سے ۱۲ برس بعد۔
قاضی صاحب… گاموں خاموش۔میں خدا کی آنکھ سے مخفی نہیں۔ مجھے کون جانتا ہے۔ مگر وہی اس لئے میں اس وقت دو پیشین گوئیاں یعنی میاں عبدالحکیم خان کی میر نسبت پیشین گوئی اور اس کے مقابل پر جو خدا نے میرے۳؎ پر ظاہر کیا ذیل میں لکھتاہوں اوراس کا انصاف خدائے۴؎ قادر پر چھوڑتاہوں اوروہ یہ ہیں: میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشین گوئی جو اخویم مولوی نورالدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے خلاف ۱۲؍جولائی۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں۔مرزا مصرف، کذاب اورعیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔ اس کے مقابل پر وہ پیشین گوئی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی
۱؎ تو ایسا ہے کیسے نہیں ذرا صبر تو کر ابھی تیری نبوت اور مسیحیت اور الہاموں کی قلعی کھلتی ہے۔
۲؎ ذرا صبر کرایسی ہی موت سے تو مریدوں کی آمنا وصدقنا پر اپنے جامہ سے باہر نکل گیا ہے اوراپنے آپ کو کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔
۳؎ مرزا قادیانی مع الخیر خود ہی خدا تھے۔جو کچھ کہناچاہتے تھے کہہ دیتے تھے۔ مجھے یہ الہام ہوا کہ مجھ پر خدا نے یہ ظاہر کیا ہے آمنا وصدقنا والو خدا تم سے وہ سلوک کرے جس کے تم مستوجب ہو۔
۴؎ بھلے مانس ساراجھگڑا تو یہ ہے کہ خدا کو ہی نہیں مانتا تھا۔ خدا اور رسول پر تیرا ایمان دکھاوے کے لئے تھا۔ غریب مسلمانوں سے چندہ لے کر عیش وعشرت کے لئے۔