میں میرے ذمہ لگائیں اورمیرے وجود کو دنیا کے لئے ایک خطرناک اور شیطان سے بد ترظاہر کرکے ہر ایک لیکچر میں مجھ پر ہنسی اور ٹھٹھااڑایا۔ غرض ہم نے اس کے ہاتھ سے وہ دکھ اٹھایا۔ جس کے بیان کی حاجت نہیں۔‘‘
نووارد… بابوصاحب خیال رکھئے گا امام الزمان صاحب کی حالت زار کا، اور پھر میاں عبدالحکیم صاحب نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ہر ایک لیکچر کے ساتھ یہ پیشین گوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی کہ مجھے خدا نے الہام کیا ہے کہ یہ شخص تین سال کے عرصہ میں فنا ہوجائے گا اوراس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ کذاب اورمفتری ہے۔ میں نے اس کی ان پیشین گوئیوں پرصبر کیا۔ مگر آج ۱۴؍اگست ۱۹۰۶ء ہے۔ پھر اس کا ایک خط ہمارے دوست فاضل جلیل مولوی نور الدین صاحب کے نام آیا۔ اس میں بھی میری نسبت کئی قسم کے عیب شماری اورگالیوں کے بعدلکھا ہے کہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو خدا تعالیٰ نے اس شخص کے ہلاک ہونے کی خبر مجھے دی ہے کہ اس تاریخ سے تین برس تک ہلاک ہو جائے گا۔ جب اس حد تک نوبت پہنچ گئی تو اب میں بھی اس بات میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ جو کچھ خدا۱؎ نے اس کی نسبت میرے پر ظاہر فرمایا ہے۔ میں بھی شائع کروں اور درحقیقت اس میں قوم کی بھلائی ہے کیونکہ اگر میں درحقیقت خداتعالیٰ کے نزدیک کذاب ہوں اور پچیس سال سے دن رات خدا پرافتراء کررہا ہوں اور اس کی عظمت وجلال سے بے خوف ہوکر اس پرجھوٹ باندھتا ہوں اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھی میرا یہ معاملہ ہے کہ میں لوگوں کا مال بددیانتی اور حرام خوری کے طریقہ سے کھاتاہوں اورخدا کی مخلوق کو اپنی بدکرداری اورنفس پرستی کے جوش سے دکھ دیتاہوں توا س صورت میں تمام بدکرداروں سے بڑھ کر سزا کے لائق ہوں تاکہ لوگ
۱؎ آپ کے ان اشعار کی یہاں قلعی کھل گئی کہ:
آنچہ من بشنوم زوجی خدا…بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم … از خطاہا ہمین است ایمانم
(درثمین ص۱۷۲، فارسی)
مثل مشہور ہے آپ نے ڈبیوں باہمنا حججان بھی نالے، خود تو مرزاقادیانی علیہ ما علیہ جھوٹے تھے۔ مگر قرآن کو بھی ساتھ لے ڈوبے اپنے منہ میاںمٹھو بنتے تھے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر بندے خدا کے تیرے سے سمجھے۔