اگر یہ کہا جائے کہ مرزا قادیانی کو الہام ہوا تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا۔ سوائے ان کے جو تیرے شریکوں کی نسبت ہوں۔ سو اول تو یہ شریکوں پر جھوٹے دعوے کرکے مقدمات ہارنے کے احتمال کے لئے پیش بندی تھی۔ دوسرے مرزا سلطان احمد سے توشراکت پیدا ہوگئی تھی۔ مگردیگر صاحبان سے بقول مرزا قادیانی مجھ کو سمجھ نہیں آتی کہ کیا شراکت تھی اور یہ الہام بھی بالکل خلاف قیاس ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ یہ الہام کرتا کہ سب سے زیادہ برے تیرے اپنے رشتہ دار ہیں۔ کوئی چوڑہوں کا بنی بنتا ہے۔ کوئی ہیجڑوں کا سردار بنتا ہے۔ کوئی عیسائی ہو جاتا ہے۔ کوئی سماج میں داخل ہوجاتا ہے۔کوئی تجھے ٹھگ اوردکاندار اسمجھ کر اپنی وہ لڑکی تجھے نہیں دیتا۔ جس کا ہم نے تیرے ساتھ نکاح کردیاہے۔ ان کی نسبت تو جو دعا یعنی خواہش کرے گا۔ میں اسے قبول کر لوں گا۔ لیکن علمائے دین کی نسبت قبول نہ کروں گا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں۔ بپابندی شریعت کر رہے ہیں۔ تو ایسا الہام ماننے کے لائق ہوتا۔
بابو صاحب مرزا قادیانی کادعویٰ تھا کہ میر ی وحی قرآن کی طرح خطاسے پاک ہے۔ (نقل کفر کفر نباشد)شعر
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاء ہاہمین است ایمانم
(دراثمین فارسی ص۱۷۲، نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ص۴۷۷)
اور اپنی پیشین گوئیوں کی نسبت فرماتے تھے۔ ہمارے صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔(آئینہ کمالات ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸، اربعین نمبر۲ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۶۸) پرمرزا قادیانی اپنا ایک الہام درج کرتے ہیں:’’خدا تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ تیرے لئے میں نے دن اوررات پیدا کیا۔ اب بحیثیت آنحضرتؐ کے بروز ہونے کے مرزا قادیانی کی آرزو یہ ہونی چاہئے تھی کہ اے اﷲ مجھے غریب رکھ، غریب ماراورغریبوں میں اٹھا نہ یہ کہ اے اﷲ میر ا گھر ناپاک دولت سے بھردے۔ ان کی مراد یہ ہونی چاہئے تھی کہ خدا کل دنیا پر رحم کرکے عیسائیوں، یہودیوں،بدھوں، دہریوں کو آنحضرت ؐ کا کلمہ پڑھوادے۔ نہ کہ پانچ لاکھ کم چالیس کروڑ مسلمان کافر ہو جائیں اوردنیا قحطوں ، جنگوں اوربیماریوں سے تباہ ہو جائے۔