نووارد… اجی لاحول ولاقوۃ۔ یہ تو گورنمنٹ کے خوش کرنے کے لئے بات بنائی گئی۔ اصل حدیث کو لو جس کا اس نظم میں حوالہ دیاگیا ہے اور جہاد کو مرزا قادیانی نے خود دفاعی جنگ مانا ہے۔ علاوہ بریں ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیجئے کہ زمین صلح سے بھر گئی یا بدامنی سے اور دین کی لڑائیاں مرزا قادیانی نے کب اور کہاں بند کردیں؟
قاضی صاحب… (چائے کی پیالی میز پررکھ کر)بابو صاحب!
حیف باشد چو مرغے واسیر قفسے
آپ جیسے شخص کا اس دام میں اسیر ہونا نہایت شرمناک ہے۔
بابو صاحب… جواب کو ایک بناوٹی ڈکار میں ٹال کرگاموں !برتن اٹھا۔ اچھا بابو کچھ اور…
نووارد… بابو صاحب!مرزا قادیانی آنجہانی اپنی کتاب(ضرورۃ الامام ص۲۴،خزائن ج۱۳ ص۴۹۵) پر بڑے جلی حروف میں لکھتے ہیں :’’امام الزمان میں ہوں۔‘‘اور اسی رسالہ کے(ص ۱۱، خزائن ج۱۳ ص۴۸۱، ۴۸۲)پرامام الزمان کی تعریف یوں کرتے ہیں :’’مصیبتوں اورابتلاؤں کے وقت اورنیز اس وقت جب سخت دشمن سے مقابلہ آپڑے اورکسی نشان کا مطالبہ ہو اوریا کسی فتح کی ضرورت ہو اوریا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے ہیںکہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت ووفا اورعزم لاینفک سے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور ان کی محویت کی تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہوکر ملائکہ میں اضطراب ڈالتا ہے… ان کے اقبال علی اﷲ کی حرارت یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کردیتی ہے اورتقدیریں بدلتی ہیں۔الخ
میں پوچھتاہوں کہ کیاکوئی ایسی بدعا بھی ہوگی جو اپنے منہ امام الزمان نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب پٹیالوی کی نسبت جنہوں نے آپ کی زندگی تلخ کرکے ناک میں دم کررکھا تھا ،کی نہ ہو اورمرزا سلطان احمد غاصب آسمانی منکوحہ کی نسبت رات کوچارپائی پر کروٹیں لیتے ہوئے جس قدر گرم بدعائیں بے اختیار مرزا قادیانی کے جسم و دل سے نکلتی ہوںگے۔ وہ تو حسب محاورہ انگریزی بیان کرنے کی نسبت قیاس میں اچھی آسکتی ہیں۔ مگرکیا ہوا نہ ملاء اعلیٰ میں شور پڑا۔ نہ آسمان پر کوئی دردناک غلغلہ پیداہوا۔ نہ کوئی تقدیر بدلی۔ اب اس سے بڑھ کر کوئی اورثبوت اس بات کا ہوسکتا ہے کہ مرزا قادیانی امام الزمان ہونے کے دعوے میں بھی جھوٹے تھے۔