M
گذارش
مرزا غلام احمدقادیانی کے تکبر وغرور نے ان کو ’’منشی‘‘ سے ’’مجدد‘‘ اور مجدد سے ’’نبی‘‘ اور نبی سے ’’خاتم النّبیین‘‘ اور خاتم النّبیین سے ’’مسیح موعود‘‘ بنادیا، اور اسی پراکتفا نہ کی بلکہ فرمایا ’’دیکھا کہ میں بعینہ اﷲ ہوں اورمیں نے یقین کیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
اس بے نظیر ترقی کا اثر یہ ہوا کہ چند اچھے بھلے تعلیم یافتہ قانون پیشہ حضرات بھی ان کے مرید بن گئے، اور سمجھ لیا کہ بس اس سے بزرگ تر ہستی نہ ہوئی، نہ ہوگی۔
لیکن خدا کی شان دیکھئے! اس بڑے بول کا جلد ہی پول کھل گیا اور مرزاجی کے مرید خاص اور شاگرد عزیز ’’مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے امیر طائفہ احمدیہ لاہور‘‘ ہی اپنے آقا کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ شاگرد رشید نے نہ صرف مرزا قادیانی کی نبوت ہی سے انکارکیا بلکہ اپنے مرشد کے عقائد کی ہر قدم پر کھلی تردید کردی۔ نبی اورامتی کے اس باہمی مجادلہ کی کیفیت ہمیں دیر سے معلوم تھی۔ مگر مصروفیات نے فرصت نہ دی کہ ہم ان اختلافات کو مرتب کریں۔ آخر اتفاق سے ’’مفتی محبوب سبحانی صاحب‘‘ واعظ سے ملاقات ہوئی جو احمدیت کی حقیقت درون خانہ سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے۔ ہم نے آپ سے اس دیرینہ ارادہ کا اظہار کیا اور آپ نے ہماری تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ جس میں انہیں کامیابی ہوئی، جو اس رسالہ کی شکل میں دنیا کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔
یہ مضمون بالاقساط کئی ماہ ’’المائدہ‘‘ میں شائع ہوتارہا اور اس عرصہ میں ہم نے بارہا ’’لاہوری احمدیوں‘‘ سے مطالبہ کیا ۔ مگر ان کو اس کے جواب میں ایک لفظ کہنے کی بھی جرأت نہ ہوئی اور ہمیں یقین ہے کہ نہ کبھی ہوگی اور جب یہ حال ہو کہ شجر مرزائیت کو اس کی اپنی ہی جڑیں خشک کرکے بے برگ و باربنا رہی ہوں تو ہم مسیحیوں کو کیا پڑی ہے کہ اس کے استیصال کی جانب متوجہ ہوں۔ ہم امت مرزائیہ کے دونوں (یعنی لاہوری اورقادیانی فرقوں) سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ! اس اختلاف نامہ کے آئینہ میں مرزاغلام احمد متنبی قادیان کی شکل وصورت کیا نظر آتی ہے؟
یکم اپریل ۱۹۳۶ء … ایم ۔کے۔ خان(مدیر المائدہ)