میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوںگے۔ اس تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کردیا کہ آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ آپ کا نہیں بلکہ اسی تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہیں تھا۔ پھر افسوس نالائق عیسائی ایسے شخص کو خدا بتارہے ہیں۔ آپ کا خاندان بھی نہایت پاک و مطہر ہے۔تین دادیاں اورنانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہورپذیر ہوا۔مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں(کسبی عورتوں) سے میلان شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان میں ہے۔ ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ ان کے سرپر ناپاک ہاتھ لگائے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہو سکتاہے۔‘‘ (حاشیہ انجام آتھم ص۵،۶،۷، خزائن ج۱۱ص۲۸۹،۲۹۱)
مرزائیوں کے آگے جب یہ عبارت پڑھی جائے تو کہا کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے یہ سب کچھ یسوع کو کہاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ گالیاں نہیں دیں۔ یہ ان کی محض دھوکہ دہی ہے۔ مرزاقادیانی توخود لکھ گئے ہیں کہ ’’مسیح ابن مریم جن کوعیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
( توضیح المرام ص۳،خزائن ج۳ص۵۲)
اب بتلائیے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں نہیں دی گئیں تو اور کس کو دی گئی ہیں۔ کیوں دوسروں کی آنکھوں میں خاک ڈال رہے ہو؟
تیر پر تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے،میری جان جگرکس کاہے
آنحضرت ﷺ کے معراج جسمانی سے انکار
’’نیا اورپرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کررہا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس جسم خاکی کے ساتھ کرہ زمہریر تک بھی پہنچ سکے۔ پس اس جسم کاکرہ ماہتاب و آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۷، خزائن ج۳ص۱۲۶)
قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں
لکھتے ہیں:’’ قرآن شریف جس بلند آواز سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔ ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمانہ حال