۳… ’’من شہر الصیام‘‘بیان تو ستر دن کا ہو اورذکر صرف ماہ رمضان کاکر رہے ہیں۔ کیا رمضان ستر دن کا ہوتا ہے؟ اس سے تو یہی لازم آتاہے۔
۴… اگر ’’من شہر الصیام‘‘کے من کو ابتدائیہ کہا جاوے،تو یہ مطلب ہوا کہ رسالہ کی تالیف کی ابتداء ماہ صیام سے ہوئی لہٰذا سبعین کے لئے تعیین تاریخ ضروری تھا۔ کیونکہ اس بات کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ستر دن میں ہم نے لکھا۔یہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ مہینے کے بیان کے ساتھ تاریخ بھی لکھی جائے۔
۵… ’’وکان من الھجرۃ ۱۳۱۸ ومن شہر النصاری ۲۰؍فروری ا۱۹۰ئ‘‘ یہاں ہجری کے سن کے ساتھ تاریخ و ماہ نہیں لکھے۔ برخلاف اس کے سن عیسوی کی تاریخ و ماہ لکھے ہیں۔ یہ طرز تحریر بالکل خلاف ہے۔دعویٰ اعجاز کا اورغلطی ایسی؟
۶… سب سے بڑی غلطی اورغلطیوں کا ڈبل باوایہ ہے کہ بیس فروری رسالہ کی ابتداء و انتہاء بن ہی نہیں سکتی۔کیونکہ خود فرماتے ہیں کہ ۱۳۱۸ء کے ماہ صیام سے رسالہ کی ابتداء ہوئی(جیسا کہ من کے ابتدایہ ماننے سے صادر آتاہے) اور یہ ماہ صیام ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۰ء روز دوشبنہ سے شروع ہوا اور ۲۱؍جنوری ۱۹۰۱ء روز دو شبنہ کو ختم ہوگیا۔ اب بتلائیے کہ آپ کی فروری کدھر گئی؟
معلوم ہوا کہ فروری کی کسی تاریخ سے ابتداء نہیں ہوئی۔اگر فروری میں ابتداء مانیں تو ماہ صیام جاتا ہے لہٰذا یہ ایک ایسی سخت غلطی کاارتکاب مرزا قادیانی نے کیا ہے کہ جس کی تلافی غیر ممکن ہے۔
ہاں !اگر تاریخ کا بیان ہے۔ یعنی بیس فروری آخر ہے تو پھر اگر ابتداء رمضان کی پہلی فرض کریں تواکہترواں دن فروری کے بعد ۲؍مارچ کو ہوگا۔پھر اگر ابتداء ماہ صیام کی تئیس یا چوبیس فرض کر لیں تو اکہترواں دن ۲۵یا ۲۶؍مارچ کو ہوگا۔۲۰؍فروری کو انتہاء کسی طرح نہیں ہوسکتی۔یہ ایک ایسی زبردست غلطی ہے۔ جس کا جواب کچھ نہیں ہو سکتا۔
ناظرین! یہ ہے مرزا قادیانی کے کلام معجز جس کو معارضہ کے لئے پیش کرتے ہیں اور جس کو مرزائی صاحبان مرزا قادیانی کی صداقت کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ان کا یہ معیار مقرر کرنا کہاں تک بجا ہے:
میرے دل کو دیکھ کر،میری وفا کودیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر