’’امارای البلاغۃ فی الکلام طرفان اعلیٰ (الیہ ینتہی البلاغۃ) وھو حد الا عجاز (وھو ان یرتقی الکلام فی بلاغتہ الی ان یخرج عن طوق البشر ویعجز ھم عن معارضتہ)‘‘(دیکھئے مطول)
اب رہا یہ دعویٰ کہ اس کے مقابلہ میں کسی نے نہیں لکھا۔ میں کہتا ہو ں کہ ایک چھوڑ کئی قصیدے لکھے گئے اورلطف یہ کہ شرائط بھی پوری کی گئی ہیں۔ ایک قصیدہ تو قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم پروفیسر اورینٹل کالج لاہور نے قصیدہ رائیہ بجواب مرزائیہ کے نام سے لکھا جو ۱۹۰۷ء کے ابتداء میں اہلحدیث کے کالموںمیں شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا قصیدہ مولانا شاہ غنیمت حسین صاحب نے مونگیر سے ابطال اعجاز مرزا کے نام سے لکھ کر دو حصوں میں طبع کرایا ہے۔ جو ہمارے ہاںبھی موجود ہے۔ اس میں قصیدہ اعجازیہ کی خوب قلعی کھولی گئی ہے اور مرزا قادیانی کی عربی دانی کو خوب اظہر من الشمس کر دیا گیا ہے۔ بین السطور ترجمہ بھی ہے۔اعراب بھی ہیں اور ساتھ ہی اردو کارد بھی ہے۔ پھر اس پر یہ کہنا کہ جواب نہیں لکھا، صریح کذب نہیںتو اورکیاہے؟
مرزا قادیانی کی عربی لیاقت
بنایا آڑکیوں جو روکا چرخہ
نکل! دیکھیں تری ہم شعر خوانی
مرزا قادیانی نے جس قصیدہ کو معارضہ کے لئے پیش کیا۔ اس کی عربی فصاحت کا نمونہ آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔ اﷲ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ جس قصیدہ کی فصاحت وبلاغت کو مرزا قادیانی اعجاز کہتے ہیں۔ اس کی لوح کی دو سطریں صحیح نہ لکھ سکے اور جو مضمون لکھنا چاہتے تھے۔وہ عربی عبارت میں ادا نہ ہوسکا۔ایسا شخص معجز نماعربی کیا لکھے گا؟ اعجاز مسیح کے لوح پر مرزا قادیانی نے عربی عبارت لکھی ہے،ملاحظہ کیجئے: ’’وانی سمیتہ اعجازالمسیح وقد طبع فی مطبع ضیاء الاسلام فی سبعین یوما وکان من الھجرۃ ۱۳۱۸ھ ومن شہر نصاریٰ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۱ء مقام الطبع قادیان (اعجاز المسیح ص ٹائیٹل بار، خزائن ج۱۸ص۱)‘‘اس معجز نماعبارت کے اغلاط ملاحظہ ہوں:
۱… طبع کی ضمیر قصیدہ کی طرف راجع ہے۔ قصیدہ مونث ہے لہٰذا ’’طبعت‘‘چاہئے تھا۔
۲… ’’قد طبع فی سبعین یوما‘‘کے یہی معنی ہوسکتے ہیںکہ یہ کتاب ستر دن میں چھاپی گئی۔یہ نہیںسمجھا جا سکتا کہ تصنیف اورطبع دونوں ستر دن میں ہوئے حالانکہ مرزا قادیانی کا مطلب یہی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ’’صنف‘‘کا لفظ زیادہ کیاجاتا۔