خدا کے کلام معجز پر ایمان نہ لائے تو اس آگ سے ڈرو جو منکرین کے لئے قبل ہی سے تیار ہے۔
سبحان اﷲ!کیسے پرزورالفاظ اور بہترین پیرایہ میں بلا کسی پس و پیش کے ایسا کھلا دعویٰ اعجاز کیاگیا ہے کہ انسان کے تصور میں بھی پہلے نہ تھا اورکیوں نہ ہو۔ یہ کوئی انسانی افتراء اور بشری چالاکی تو نہیں ہے۔
اب ذرا مرزا قادیانی کے عجز اور قرآن پاک کے اعجاز کا مقابلہ سے دکھاتا ہوں۔ ناظرین خود ہی انصاف کریں۔
مرزا قادیانی کا عجز
قران پاک کا اعجاز
۱… زیادہ سے زیادہ جواب کے لئے بیس دن کی اجازت ہے۔
۱… قیامت تک مہلت ہے کہ اس کے مثل لاؤ۔
۲… جواب میں مرزاقادیانی کے قصیدہ کے برابر اشعارہوں اور اردو مضمون کی عبارت بھی مرزا قادیانی سے کم نہ ہو۔
۲… ایک سو چودہ سورتوں میں سے ایک ہی سورت اس کے مثل بنا لاؤ۔
۳… قصیدہ نظم ہے۔
۳… قرآن پاک نثر ہے اوربظاہر نثر کا معارضہ نظم سے سہل ہوتاہے۔
۴… مخاطب وہ ہیں جو ہندوستان کے رہنے والے ہیں۔ جن کو نہ عربی نویسی کا دعویٰ ہے، نہ مشغلہ اورنہ ان کی زبان۔
۴… مخاطب وہ تھے جن کی عربی فصاحت اور بلاغت بے مثل اور دعویٰ اس سے بھی زیادہ اور یہی ان کا مشغلہ اور سرمایہ فخر تھااورمادری زبان تھی۔
۵… دعویٰ وہ کرتا ہے،جو لکھا پڑھا اور جس نے ایک زمانہ تک کتب بینی کی۔
۵… مدعی امی محض ہیں۔(فداہ ابی وامی)
مزید برآں مرزا قادیانی کا یہ قصیدہ کلام اعجازی ہو ہی نہیںسکتا۔ کیونکہ قوم کی زبان میں ہونا چاہئے تھا۔’’وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ‘‘قومی زبان تو اردو یا پنجابی تھی۔ اگر کلام معجز کا دعویٰ اردو یا پنجابی میںکیا جاتاتو خوب حقیقت منکشف ہوجاتی۔
دوسرے یہ کہ کلام معجز اس کو کہتے ہیں۔ جو بلاغت کے انتہائی رتبہ پر پہنچ کر انسانی طاقتوں سے نکل کر لوگوں کواپنے مقابلہ سے عاجز کردے۔