ہے اس حواس باختگی کا کیاٹھکانا یہ ہے مرزا قادیانی کا فلسفہ۔
اب ذرا قرآن کریم کا اعجاز بھی ملاحظہ ہو کہ کس زور سے بلا شرط چیلنج دیا جاتاہے:
’’وان کنتم فی ریب ممانزلنا علی عبدنا فاتوابسورۃ من مثلہ وادعوا شہدائکم من دون اﷲ ان کنتم صادقین،فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقواالنار التی وقودہا الناس والحجارۃ اعدت للکافرین‘‘
{یعنی جو ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ پر قرآن اتارا ہے۔ اگر تم کو اس میں شک ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ کتاب خدائی نہیں بلکہ آدمی کی بنائی ہوئی ہے اوراپنے اس دعوے میں اگر سچے ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنالاؤ او راﷲ کے سوا جو تمہاری حمایت کو آموجود ہوں ان کو بھی بلا لو۔پس اگر اتنی بات بھی نہ کر سکو اوریقینا ہرگز نہ کر سکوگے۔ تو دوزخ کی آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اورپتھر ہوںگے اور وہ منکرین کے لئے دھکی دھکائی ہے۔}
ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱… اس کے مخاطب تمام مخالفین اسلام الی یوم القیام ہیں۔ اسی وجہ سے معارضہ کے لئے آئندہ کا بھی اعلان ہے۔
۲… جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا(الخ) یعنی قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں۔ بندہ پیغامبر امی محض ہے۔نہ لکھا، نہ پڑھا اور نہ کبھی کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب کو سبق کے لئے تہ کیا۔ بخلاف اس کے تم سب پرانے مشاق،لکھے،پڑھے،میدان فصاحت و بلاغت کی اعلیٰ شہسواری کے مدعی ہو اور یہی تمہاراسرمایہ ناز ہے۔
۳… قرآن کامثل لاناتو ایک بڑی بات ہے۔ لو ایک سورت ہی بنالاؤ؟
۴… تم اکیلے نہیں،بلکہ خدا کے سوا اپنے تمام مددگاروں سے اس میں مدد لو۔ دوسری آیت میں ہے کہ جن و انس دونوں مل کر اس کے معارضہ کے لئے اجتماعی قوت سے کام لیں۔
۵… اگر سچے ہو،تو معارضہ کرو،اورجھوٹے ہو توگھر بیٹھو۔
۶… اس کے بعد ان کو معارضہ اور مقابلہ پر ابھارنے اور جوش دلانے کے لئے کہا کہ اگر نہ کر سکو اورہرگز نہ یقینا نہ کر سکو گے۔ یہاں زمانہ حال اورمستقبل دونوںمیں معارضہ کی نفی بلکہ زمانہ استقبال میں تاکید کے ساتھ قیامت تک کے لئے نفی ہے کہ آئندہ ایسا ہرگز نہ کرسکو گے۔
۷… اب آخر میں ان کے عرق حمیت کو حرکت میں لانے کے لئے تاکہ وہ ناخنوں تک زور لگا کر دیکھ لیں، کہ یہ قرآن انسانی طاقت سے بالاتر ہے یا نہیں۔ یوں ارشاد ہواکہ اگر اس پر بھی تم