ہے۔ کیونکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن شریف تو بآواز بلند پکار پکار کر کہتا ہے کہ:’’وما علمناہ الشعروماینبغی لہ‘‘{نہ ہم نے ان کو شعر سکھایا اور نہ ان کے سزا وار ہے۔}دوسری جگہ: ’’وماھوبقول شاعر‘‘{یہ قرآن شریف کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔}
قرآن شریف تو کئی جگہ اشعار کی مذمت کرتا ہے۔ مگر ادھر اعجازی کلام کو اشعار میں پیش کیاجاتاہے۔ جو صریح قرآن شریف کی تعلیم کے خلاف ہے لہٰذا مرزا قادیانی کے پیش کردہ اعجاز کا اشعار میں ہونا اس کے بطلان کی سب سے پہلی زبردست دلیل ہے۔
اچھا!اس سے بھی قطع نظر کیجئے۔ اب ذرا غور سے دیکھئے کہ مرزا قادیانی نے اس قصیدہ کے جواب کے لئے کیسی کیسی کڑی اوراہم شرائط پیش کی ہیں۔ جو انسانی اوربشری طاقت سے بالا تر ہیں۔لکھتے ہیں:
۱… ’’اب ان کی اصلی میعاد ۲۰؍نومبر سے شروع ہوگی۔ پس اس طرح پر دس دسمبر ۱۹۰۲ء کو اس میعاد کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کے دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی۔‘‘ (ضمیمہ نزول المسیح ص۹۰،خزائن ج۱۸ص۲۰۵)
۲… ’’یہ شرط ضروری ہے کہ جو شخص بالمقابل لکھے، وہ ساتھ ہی اس کا اردو ترجمہ بھی لکھے۔ جو میری وجوہات کو توڑ سکے۔ جس کی عبارت ہماری عبارت سے کم نہ ہو۔‘‘
(ضمیمہ نزول المسیح ص۸۹، خزائن ج۱۸ص۲۰۳)
۳… ’’مگر چاہئے کہ میرے قصیدہ کی طرح ہر ایک بیت کے نیچے اردو رد لکھیں اور منجملہ شرائط کے اس کو بھی ایک شرط سمجھ لیں۔‘‘ (ضمیمہ نزول مسیح ص۹۰،خزائن ج۱۸ص۲۰۴)
پہلی شرط کی رو سے جواب کے لئے صرف بیس دن کی مہلت دی جاتی ہے۔ چونکہ مرزا قادیانی کو اپنی عجز اور اعجاز کی پوری حقیقت معلوم تھی اور دل میں خائف تھے اورمعارضہ کے خیال سے لزرتے تھے، ان کا دل دھڑکتا تھا او ر ہمیشہ اس کے جواب کا خوف دامن گیر رہتا تھا لہٰذا ایسی کڑی شرط پیش کی کہ تھوڑے کئے کوئی لکھنے کی جرأت نہ کرے۔ اس پر ہی بس نہیں۔
دوسری شرط میں یہ کہہ دیا کہ عبارت بھی ان سے کم نہ ہو۔ اگر کوئی مختصر عبارت میں ان کے وجوہات کو توڑ دے،تو مرزا قادیانی کے فہم سلیم کے موافق اس کا جواب نہ ہوگا۔
تیسری شرط میں توغضب ڈھایا، کہا کہ اردو ترجمہ بھی نیچے ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص بین السطور نہیں، بلکہ حاشیہ پر ترجمہ لکھ دے تو مرزا قادیانی کے شرائط پورے نہ ہوئے۔
اب آپ خود ہی انصاف کیجئے کہ بیت کے نیچے اردو ترجمہ کا لکھنا بھی کوئی اعجاز کی شان