نہیں کرسکتا۔ اس سے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہوگئی کہ تئیس برس کی مدت کا معیار صداقت ہونا بالکل غلط ہے اورآنحضرت ﷺ کا دعویٰ وحی کے بعدتھوڑی مدت بھی سلامت با
کرامت رہنا آپ کی صداقت کے اثبات کے لئے کافی واوفی ہے۔ تئیس برس کی مدت کی ہرگز ضرورت نہیں اور یہ آیت عام نہیں ہوسکتی بلکہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے یا سچے رسولوں کے ساتھ۔
باقی رہی یہ بات کہ جس مدعا کے ثابت کرنے،جس مطلب کو برلانے اور جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے تئیس برس کی شرط لگا کر اس معیار کو پیش کیاجاتا ہے۔ وہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ مرزا قادیانی نے تو ۱۹۰۱ء میں دعویٰ نبوت کیا۔ (دیکھئے کتاب حقیقت النبوۃ مرزا محمود صاحب ص۱۲۰،۱۲۱)اور ۱۹۰۸ء میں وفات پائی۔
لیجئے!اب تو آپ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہی مرزا قادیانی کاذب ہو گئے اور آپ کی یہ کوشش، یہ سعی، یہ چالاکی، یہ فریب دہی ضائع اوررائیگاں ہوگئی۔ ’’والحمدﷲ علی ذالک‘‘
بتلائیے! اب بھی اس کے غلط ماننے سے آپ کو انکار ہے؟ اب تو مجبوراً آپ کو سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ مگر ہاں:
اس لئے وصل کا انکار ہے، ہم جان گئے
تا نہ سمجھے کوئی، کیا جلد کہامان گئے
تیسرا معیار اوراس کی تردید
تیسرا معیار جس کو مرزا قادیانی کی صداقت کی زبردست دلیل سمجھتے ہیں،وہ یہ ہے: ’’فان لم یستجیبوا لکم فاعلموا انما انزل بعلم اﷲ‘‘{یعنی اگر منکر لوگ اس اعجازی کلام کا مقابلہ نہ کر سکیں تو اے طالبان حق جان لو کہ یہ علم الٰہی سے ظاہر ہوا ہے۔}
اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے قرآن شریف کے مقابلہ اورمعارضہ کے لئے دنیا کو چیلنج دیا اوردنیا اس کے مقابلہ سے عاجز آگئی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر ہوگئی۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے بھی مقابلہ اور معارضہ کے لئے اپنا قصیدہ اعجازیہ پیش کیا اورلوگوں نے اس کا جواب نہ دیا لہٰذا یہ مرزا قادیانی کی صداقت کی دلیل ہے۔
اوّل تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قصیدہ اعجازیہ کو صداقت کی دلیل تصور کرنا ایک زبردست غلطی