دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
V دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول… جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم… جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم… جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم… جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
میں دعوے سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتاہوں کہ کوئی مرزائی اس بات کوہرگز ہرگز ثابت