Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد نمبر 51

482 - 568
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
V	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	دوسرے یہ کہ آیت مذکورہ بالا تو آنحضرت ﷺکی صداقت کا بڑے زور سے اظہار کرتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔کیونکہ لومحال کے لئے آتا۔ یعنی یہ امر محال ہے کہ نبی جھوٹ بولے۔ جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘یعنی یہ امر محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اورخدا بھی ہو۔
	نیز یہ معیار بوجوہ ذیل لغو،باطل اورمبنی علی الکذب ثابت ہوتاہے۔
اول…	جب آیت کا مطلب یہ ہے کہ مفتری جلد ہلاک کیاجاتاہے۔ تو تئیس برس کی مدت معیار صداقت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ تئیس برس سے کچھ کم مدت مثلاً بائیس برس اور چند مہینے کو کوئی ذی شعور جلدی نہیں کہہ سکتا۔
دوئم…	جن سچے نبیوں کی صداقت کا زمانہ تئیس برس سے کم ہے۔ وہ حضرات بھی سچے ثابت نہیںہوسکتے۔(نعوذ باﷲ منہ)
سوئم…	جب آیت کے معنی کی صحت آنحضرت ﷺ کی وفات پر موقوف ہے تو قبل وفات آیت کے صحیح معنی معلوم نہیں ہو سکتے اور اس سے لازم آتا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آیت کے صحیح معنی نہیں سمجھے ہوں۔(نعوذ باﷲ! منہ)
چہارم…	جب یہ آیت آنحضرت کی نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے استدلالاً پیش کی گئی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ نبوت کی صداقت کا ثبوت نبی کی زندگی میں ہونا چاہئے اور جب اس کے معنی کی صحت آپ کی وفات پرموقوف ہے۔ تو پھر آپ کی زندگی میں یہ صدق نبوت کی دلیل کیونکر ہو سکتی ہے؟ اورآپ نے یہود ونصاریٰ وغیرہ مخالفین کے مقابلے میں اس کو کیونکر پیش کیا؟
	اس کے علاوہ ان کے بطلان کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ ہم کئی جھوٹے مدعی نبوت دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے تئیس برس سے کہیں زیادہ نبوت کی۔صالح بن طریف کی طرف دیکھ لیجئے کہ سینتالیس برس نبوت اورحکومت کی۔ تاریخ ابن خلدون کے ورق الٹ کر ملاحظہ کر لیجئے کہ اس کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی۔ تو کیا وہ مرسل من اﷲ تھا؟ کیا وہ سچا رسول تھا؟ اس معیار کے مطابق تو اس کو سچا ماننا پڑے گاورنہ آپ کامعیار غلط اورلغو ہوگا۔
	ہاں! اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ پر اعتبار نہیں، تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ہمیشہ تاریخی ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسیح کی قبر کشمیر میں ثابت کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور غیر معتبر تواریخ کے حوالے دیتے رہے ہیں کہ الامان!الامان!
	میں دعوے سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتاہوں کہ کوئی مرزائی اس بات کوہرگز ہرگز ثابت 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرض مرتب حضرت مولانا اﷲ وسایا 4 1
3 آئینہ مرزا، یا مرزائی ناول حضرت مولانا عبدالحئی کوہاٹی ؒ 7 1
4 ضرورت رسالت (حصہ اوّل) حضرت مولانا سلطان محمود دہلویؒ 251 1
5 ضرورت رسالت (حصہ دوم) ؍؍ ؍؍ ؍؍ 295 1
6 صدع النقاب عن جساسۃ الفنجاب حضرت مولانا سید محمد اویس سکروڈھویؒ 343 1
7 اسلام اور مرزائیت حضرت مولانا عتیق الرحمن آرویؒ 371 1
8 فتنہ قادیانیت جناب صفوۃ الرحمنؒ 411 1
9 قادیانی مسلمان نہیں؟ جناب عبدالرحیم قریشی ؒ 437 1
10 آسمانی کڑک حضرت مولانا ابوالبیان محمد داؤد سپروریؒ 475 1
11 کارزار قادیان حضرت مولانا مفتی محبوب سبحانی واعظ 535 1
12 کلمہ حق حضرت مولانا محمد حسین سرحدیؒ 559 1
13 آسمانی نکاح کے ایک عربی الہام کا ترجمہ 106 3
14 مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ 72 3
15 مرزا کا دعویٰ 200 3
16 پیغمبروں کے بھیجنے کی ضرورت 253 4
17 پیغمبروں کا معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے 255 4
18 پیغمبروں کا منصب نبوت سے معزول ہوناممکن نہیں ہے 256 4
19 پیغمبر خود مختار نہیں ہوتے 257 4
20 پیغمبروں کا انسان ہونا ضروری ہے 257 4
21 پیغمبروں کے انتخاب کے بارہ میں کافروں کی رائے کا رد 258 4
22 کافروں کی رائے کامنشاء 259 4
23 کافروں کی غلط فہمی کا ازالہ 260 4
24 پیغمبروں کے لئے معجزات کی ضرورت 266 4
25 معجزات کی حقیقت 267 4
26 پیغمبروں کا معجزات میں مختلف ہونے کا سبب 268 4
27 تشریح معجزات قسم اول 269 4
28 تحدی کے معجزات کا قاعدہ 270 4
29 دوسری قسم کے معجزات کی تشریح 274 4
30 پیغمبروں کے پاس علم آنے کے ذرائع 275 4
31 نبوت کی تکمیل کے لئے ملائکہ کے انتخاب کی ضرورت 276 4
32 ملائکہ کے پردار ہونے کی وجہ 277 4
33 پیغمبروں کی شریعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ 278 4
34 پیغمبروں کی تعلیم سے سب لوگ برابر مستفید نہیں ہوتے 281 4
35 اختلاف فطرت کے اختیار کرنے کی وجہ 284 4
36 پیغمبر کسی دوزخی کو جنتی نہیں بنا سکتے 288 4
37 پیغمبروں کا جان سے زیادہ محبوب ہونا 293 4
38 پیغمبروں کی تصدیق کا جزو ایمان ہونا 294 4
39 رسول اﷲﷺ کاتمام پیغمبر وں سے افضل ہونا 296 5
40 افضلیت کے معنی کی تشریح 296 5
41 حضرت رسولﷺ کی دعوت کا عام ہونا 298 5
42 دلائل عقلیہ 299 5
43 رسول اﷲﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا 307 5
44 دلائل عقلیہ 320 5
45 معجزات علمیہ 331 5
46 معجزات عیسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ 332 5
47 معجزات موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ 334 5
48 معجزہ خلیل اﷲ سے مقابلہ 335 5
49 حضورﷺ کے قطعہ عرب میں مبعوث ہونے کی حکمت 336 5
50 حضورﷺ کے امی ہونے کی حکمت 339 5
51 کفریات مرزا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں 345 6
52 خاتم الانبیائﷺ پر فضلیت کے دعوے 353 6
53 حضرت آدم اور حضرت نوع علیہم السلام پر بھی فضیلت کا دعویٰ 353 6
54 حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پرافضل ہونے کا دعویٰ 354 6
55 تمام انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کا دعویٰ 354 6
56 مرزا کے وساوس معہ حوالہ کتب 358 6
57 عبارات مرزا 362 6
58 الہامات شیطانیہ 369 6
59 انگریزی الہامات 370 6
60 ذات وصفات باری تعالیٰ … ابوّب و نبوت 373 7
61 زوجیت 374 7
62 مماثلت 375 7
63 الوہیت 376 7
64 نوم و یقظہ۔جہل وغلطی وغیرہ 377 7
65 حدوث وقدم عالم 378 7
66 نبوت ورسالت 380 7
67 ختم نبوت 384 7
68 دعویٰ نبوت 387 7
69 توہین انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام 390 7
70 توہین حضرت عیسیٰ علیہ السلام 390 7
71 توہین حضرت نبی کریمﷺ 396 7
72 سرور عالم ﷺ کی خصوصیات اور مرزا کا دعویٰ ہمسری 400 7
73 ملئِکہ 404 7
74 حیات عیسیٰ علیہ السلام 408 7
76 قادیانیت۔ اسلام کے خلاف انگریزوں کی سازش 439 9
77 مرزا قادیانی کے نت نئے دعوے اورفتنہ انگیزیاں 450 9
78 کئی اور متضاد دعوے 458 9
80 مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں کا حشر 463 9
81 گستاخانہ زبان اورگندے خیالات 459 9
82 غلام احمد قادیانی کی عبرتناک موت 469 9
83 کیا قادیانیوں کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھاجاسکتاہے؟ 472 9
84 باب اوّل 478 10
85 باب دوئم 491 10
86 باب سوئم 506 10
87 باب چہارم 511 10
88 باب پنجم 513 10
89 باب ششم 524 10
90 نبی اور امتی 537 11
91 ایک سوال اور اس کا جواب 537 11
92 نبی کا ارشاد 539 11
93 امتی کا انکار 548 11
94 مرزا قادیانی کا فیصلہ 558 11
Flag Counter