اس کے حصول کو فلاح اورکامیابی سمجھا جائے۔ معلوم ہوا کہ کامیابی سے مراد دنیوی فلاح اوردنیوی کامیابی ہرگز ہرگز نہیں بلکہ اس فلاح سے مراد فلاح اخروی ہے۔ قرآن شریف بھی متعدد جگہ اس امر کی خوب زور سے توضیح وتشریح اور تائید کرتا ہے۔ جیسے ’’والعاقبۃ للمتقین‘‘لہٰذا اس کومرزا قادیانی کی صداقت کامعیار ٹھہرانا عوام الناس کودھوکہ اورفریب دینا اورنصوص قرآنیہ کے معانی کو بگاڑنا ہے:
دام تزویر بنارکھا ہے،قرآن کریم
کارافسانہ حدیثوں سے لیا کرتے ہیں
دوسرا معیار اور اس کی تردید
دوسرامعیار جس کے متعلق مرزائی حضرات دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ اس کا جواب غیر ممکن ہے، وہ یہ ہے: ’’لوتقول علینا بعض الاقاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین، فمامنکم من احد عنہ حاجرین‘‘{یعنی اگر یہ پیغمبر ہمارے ذمہ کچھ (جھوٹی) باتیں لگا دیتے (یعنی جو کلام ہمارا نہ ہوتا، اس کو ہمارا کلام کہتے اور نبوت کاجھوٹا دعویٰ کرتے) تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے تو پھر ہم ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے، تو پھر تم میں کوئی ان کا اس سزا سے بچانے والا بھی نہ ہوتا۔}
آیت بالاسے یہ امر ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں کہ جھوٹا مدعی نبوت تئیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ اس طرح کہ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چالیس برس کی عمر میں دعویٰ نبوت کیا اورتریسٹھ برس کی عمرمیں آپ نے وفات پائی لہٰذا یہ زمانہ نبوت جو تیئس برس بنتے ہیں۔ سچے نبی کے لئے معیار صداقت ہوئے۔ یعنی اگر کوئی شخص دعوے نبوت کرے اور پھر تئیس برس تک اس کی نبوت کا زمانہ رہے،تو وہ سچا نبی ہوگا۔
یہاں پر آیت کے معنی الٹ پلٹ کرکے ایسے من گھڑت مرضی موافق مفہوم نکالا گیا ہے جس کو کوئی ذی عقل، سلیم الفطرت ماننے کے لئے تیار نہیں۔
سب سے قبل ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’تقول‘‘کی ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف راجع ہے۔ یہ قضیہ شخصیہ ہے۔ کلیہ نہیں۔ پھر اس سے نبی بالعموم کیوں مراد لیا جاتا ہے؟
ہاں!اگر فرض بالمحال نبی بالعموم مرادلیا بھی جائے تو پھر ضروری ولابدی ہے کہ پہلے سچا نبی ہو تو پھر جھوٹ بولے تو پھر خدا تعالیٰ اس کوجلد ہلاک کر دیتاہے۔ مرزا قادیانی سچے نبی نہیںتھے لہٰذا ہلاک نہیں ہوئے۔