توقع ہی کیسی تھی۔ مگر اسے کیا کیجئے کہ حیات کی اس کشمکش جدیدہ میں ہمارے اپنے ہاتھ ہی نبض کی تپش آخری کو معلوم کرنے کے لئے گلوگیر ہیں:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی،گھر کے چراغ سے
مرزا قادیانی اور ان کی دلخراش و جگر سوز کتب کو ملاحظہ کیجئے جن میں سوائے توہین انبیاء کرام وتذلیل مشائخ عظام وتکفیر علماء کے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس سے ہر مومن متنفس کے قلب کے اندر غم و ملال اورحزن و ماتم کی بھٹیاں سلگیں گی اوران کا دھواں اس کے لئے باعث افزونی عذاب جہنم ہوتا رہے گا:
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو،کہ خالی جائے گی
بڑے بڑے صاحبان سلطنت مدعیان عقل و ادراک، فہم و تدبیر نے اسلام کو تنزل پہنچانے میںآراء وخیالات ظاہر کئے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے غلغلہ فلک پاش اور طنطنہ زلزلہ آفرین کے ساتھ اس کی بربادی کی تجاویز مختلفہ کی تائید کی اور سعی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ مگر اس کا بال تک بیکا نہ کرسکے۔ تو یہ بے چارے مرزاقادیانی ان کے مقابلہ میں کیا ہستی رکھتے ہیں؟
جب مسیلمہ کذاب جیسے مدعی نبوت جس نے آنحضرت ﷺ کے سامنے دعویٰ نبوت کیا اور عرصہ قلیل ہی میں ایک لاکھ سے زائد اس کے پیرو ہوگئے۔ اس کی یہ حالت ہوئی کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا اور آج دنیا میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں۔ تو یہ مرزا قادیانی اس کے آگے ہیں کیا چیز؟
بہر حال اس پر سکوت و خاموشی سے کام لینا موزوں اورمناسب نہ سمجھا اور ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی سرکوبی اور دفعیہ کیا جائے تاکہ عوام کے اعتقاد اس کی مواد فطرت کی ہواؤں اور جہالت کے بخارات سے متعفن اورگندے نہ ہونے پائیں:
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم یوں فریاد کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یہ رسوائیاں ہوتیں
چونکہ مرزائی صاحبان عوام کو دام تزویر میں لانے کے لئے مرزا قادیانی کی صداقت میں قرآن شریف کی آیات یا احادیث سے معیار پیش کیا کرتے ہیں۔اس لئے بہت مناسب