میں نہیں ملتی۔ چار سو برس تک حکومت کی اور اس مدت دراز اورعرصہ طویل میں اس کو بخار تک نہ آیا۔ہر طرح کی نفسانی خواہشات اور ہر طرح کی دلی مرادیں پوری ہوئیں۔ ایسے مفتری،ایسے کاذب، ایسے گمراہ اور ایسے نافرمان کو تو ایک منٹ، ایک ساعت،ایک لحظہ اور ایک آن واحد کی مہلت نہیں دینی چاہئے تھی۔ اس کو کیوں اتنی مہلت ملی اور کیوں اتنا موقع دیا؟
قرآن شریف بھی اس کو پکار پکار کر کہتاہے:’’وقد خاب من افتریٰ‘‘کہ وہ ٹوٹے، گھاٹے اورنقصان میں رہا۔ تو معلوم ہواکہ کامیابی اور فلاح سے مراد زیادہ دیر تک زندہ رہنا ہرگز ہرگز نہیں۔
فرعون نے مخلوق سے اپنی خدائی منوا کر خلق کو گمراہ کیا۔ ا س کی گمراہی ایک کاذب اور جھوٹے ملہم کی گواہی سے لاکھ حصہ زیادہ ہے۔ کیونکہ اس نے تو منعم اصلی اورخالق حقیقی کے ساتھ زور وشور سے مقابلہ کیا۔ مگر اس قہار کی آتش غضب نے ایسے مفتری اور ایسے کاذب کو چار سو برس کی مہلت دی۔ پھرکیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایسا سخت مجرم، گمراہ کرنے والا تو جلد ہلاک نہ ہو اورجھوٹا مدعی الہام جلد ہلاک کیا جائے۔ اسے کوئی عقل سلیم باور نہیں کرسکتی۔
اس کوچھوڑیئے، صالح بن طریف کی طرف دیکھئے۔ اس نے دعویٰ نبوت کے ساتھ مہدویت کا بھی دعویٰ کیااور سنتالیس برس حکومت اورنبوت کی اور پھر یہ کہ وہ مر نہیں گیا۔ بلکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ اس عرصہ کے بعد مشرق کی جانب چلاگیااور کہا کہ تمہاری ساتویں پشت کا جو بادشاہ ہوگا۔ اس وقت میں لوٹ کر آؤں گا۔ملاحظہ ہو:’’کان ظہور صالح ہذا فی خلافت ہشام ابن عبدالملک من سنۃ سبع وعشرین من المات الثانیۃ من الھجرۃ ثم زعم انہ المہدی الاکبر الذی یخرج فی اخرالزمان وان عیسی یکون صاحبہ ویصلی خلفہ الخ (تاریخ ابن خلدون ج۶ ص۲۰۷)‘‘{یعنی اس نے ۱۲۷ ھ میں دعویٰ نبوت کے بعد یہ کہا کہ میں مہدی اکبر ہوں جو آخر وقت میں ظہور کریں گے اورعیسیٰ علیہ السلام ان کے ہمراہ ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔}
اب سوال یہ ہے کہ یہ تومدعی نبوت تھا۔ اس کو کیوں اتنی مہلت ملی۔ تو معلوم ہوا کہ کامیابی سے مراد زیادہ دیر تک زندہ رہنا ہرگز ہرگز قطعی طور پر نہیں۔
ہاں! اگر کامیابی اور فلاح سے مراد متبعین کا زیادہ ہونا ہے۔تو بتلائیے کہ مسیلمہ کذاب جس نے آنحضرت ﷺ کے سامنے نبوت کا دعویٰ کیا اورقلیل عرصہ ہی میں ایک لاکھ سے زائد اس کے مقلدوپیرو بن گئے اورمقابلہ میں آنحضرت ﷺ کی جانب ایک بہت قلیل تعداد تھی۔ تو کیا وہ