یہ مؤقف بھی زیادہ دن قائم نہیں رہا۔ کچھ ہی عرصہ بعدیہ اعلان ہوا کہ جو غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان نہ لائے اوران کو مسیح موعود نہ جانے وہ کافر ہے۔ ظاہر ہے انگریز اس پر مطمئن نہیں ہو سکتے تھے کہ جہاد کو منسوخ کرنے والا صرف نزول وحی اورمسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرکے اپنی بات کو مسلمانوں کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ مانیں یا نہ مانیں۔ انگریز تو چاہتے تھے کہ جہاد کی منسوخی کو اتنے شدومد کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اس کو تسلیم نہ کرنے والے کو کفر میں مبتلا ہونے اورجہنمی ہونے کاخوف پیداہو اورغلام احمد قادیانی کی طبیعت ایسی ’’مانو یا نہ مانو‘‘ والی نبوت پر رکنے والی کہاںتھی۔ غنیمت یہی کہ خدائی کے دعوے تک نہیں پہنچی۔ چنانچہ پھر مؤقف بدلا۔ اب اعلان ہوا: ’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کوبھی نہیں مانتا…اور مجھ کو باوجود صدہا نشانیوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتاہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۶۴،خزائن ج۲۲ص۱۶۸)
مرزا قادیانی نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ کسی مسلمان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔لکھا: ’’پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر یامکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘
(اربعین نمبر۴ص۶۸،خزائن ج۱۷ص۴۱۷حاشیہ)
مرزا قادیانی نے ۱۶؍جون ۱۸۹۹ء کو اشتہار چھاپ کر تقسیم کروایا کہ یہ الہام ہوا کہ: ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۲۷۵)
غلام احمدقادیانی نے اپنی نبوت کا انکار کرنے والوں کے لئے ایسی گری ہوئی زبان استعمال کی جس کی ایک سلیم الطبع شخص سے توقع نہیں رکھی جا سکتی۔کہا: ’’مگر بدکار رنڈیوں کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگادی ہے،وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸،خزائن ج۵ص۵۴۸)
ایک اور جگہ لکھا: ’’یہ جو ہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے۔ اول تو یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے تھا نہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ ریا پرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اوران لوگوں کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت میں ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عمدہ اورتازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں جوسڑ گیا اورجس میں کیڑے پر گئے ہیں۔‘‘ (تشحیذ الاذہان ج۶ص۸)