سوم… توفی کے معنے جب ہوئے دنیا میں رہنے کے دن پورے کر دینے کے تو آنحضرتؐ کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہ رہا۔ خاص کر جب کہ مخاطب دونوں پیغمبروں کا خوب جانتاتھا کہ اس کے دن میں نے کس طرح پورے کئے اوراس کے کس طرح پورے توباقاعدہ تنویع اگر آنحضرتؐ نے وہی الفاظ استعمال کئے۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کریںگے تو اس میں کیاحرج واقعہ ہوا۔ لیکن بابو صاحب آپ کے اس سوال سے ایک خرابی واقعہ ہوئی۔ جس کو آپ قیامت تک رفع نہیں کر سکیں گے۔پوری حدیث کوثر اس طرح ہے{روایت ہے ابن عباس ؓ سے کہا کہ خطبہ پڑھا رسول اﷲؐ نے، پس فرمایا اے لوگو!بیشک تم جمع کئے جاؤ گے۔ اﷲ کی طرف ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کئے }پھر پڑھی یہ آیت’’کمابدانااول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین (انبیائ:۱۰۴)‘‘پھر فرمایاکہ آگاہ ہوجاؤ کہ سب مخلوق سے پہلے قیامت کے دن حضرت ابراہیم کو کپڑے پہنائے جائیںگے۔ آگاہ ہوجاؤ اور بیشک لائے جاویںگے چند مرد میری امت میں سے پھر لے جاویںگے ان کو بائیں طرف۔ پھر کہوںگا میں اے رب!یہ میرے چھوٹے اصحاب ہیں۔ پس کہاجائے گا بیشک تو نہیں جانتا ہے کہ کیا نئی چیزیں نکالیں انہوں نے بعد تیرے۔ پس کہوںگا میں مانند اس کی کہ کہا بندہ صالح یعنی عیسیٰ نے ’’وماکنت علیہم شہیدا مادمت فیہم فلماتوفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (مائدہ:۱۱۷)‘‘پس کہا جائے گا کہ بیشک یہ لوگ پھرگئے اپنی ایڑیوں پر جیسے کہ چھوڑا تو نے ان کو۔
اب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو مرزاقادیانی بڑے جھوٹے اور مفتری تھے۔ کیونکہ اس حدیث سے پایاجاتا ہے کہ قیامت کے دن آنحضرتؐ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے سامنے یہ بیان دیںگے کہ جب تک ہم ان میں رہے۔ اپنی امتوں کے حال سے باخبر رہے۔ لیکن اے اﷲ!جب تو نے ان میں سے ہم کواٹھالیا۔ پھر ہمیں خبر نہیں کہ انہوں نے کیاکیا اورمرزا قادیانی فرماتے ہیں :’’آنحضرتؐ کی نسبت لوگ آنحضرتؐ کی حدیثیں زید وعمر سے ڈھونڈتے ہیں اور میں بلاانتظار آپ کے منہ سے سنتاہوں۔‘‘
(دافع الوساوس ص۲۵،خزائن ج۵ ص۲۵)
’’میں نے کئی دفعہ آنحضرت کو اسی بیداری میں دیکھا ہے۔ باتیں کی ہیں۔ مسائل پوچھے ہیں۔ (جنگ مقدس ص۱۲۹، خزائن ج۶ص۲۲۳)
یا رسول اﷲ برویت عہد دارم استوار
عشق تودارم ازاں روزیکہ بودم شیرخوار
درود وعالم نسبتے دارم بتواز بس بزرگ
پرورش دادی مرا خود ہمچوطفلے درکنار