عبدالحکیم خان کے لئے بددعا کی تھی کہ وہ طاعون ہیضہ جیسی مہلک بیماریوں سے مرزا کی زندگی میں ان کے سامنے مر جائیں۔ پھر اس بددعا کو اﷲ کی طرف سے الہام بتایا اور اس کو اپنے دعوؤں کی سچائی کی نشانی قرار دیا کہ اگر یہ اصحاب ان کی زندگی میں نہ مریں تو ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
اﷲ جل جلالہ نے مرزاغلام احمدقادیانی کی موت کو ان کے جھوٹ اورفریب کی نشانی بتا دیا۔ ان کی موت نے ان کے تمام دعوؤں کو جھٹلادیا۔ مولانا ثناء اﷲ امرتسری اورڈاکٹر عبدالحکیم خان کے جیتے جی ہی، مرزا غلام احمد کی موت ہوئی اورموت بھی مرگی کے دوروں میں اورہیضہ کے مرض سے ہوئی۔
یہ مقام عبرت ہے تمام قادیانیوں کے لئے جن کو اﷲ تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں اور دل دیا ہے۔ وہ نبوت کے دعوے دار کے برے انجام سے عبرت لیں۔
بیٹے کی گواہی
مرزاغلام احمدقادیانی کے بیٹے بشیر احمدنے جو باپ کے دعوؤں کو ماننے والا تھا لکھا ہے: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود یعنی والد صاحب (مرزا قادیانی) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کادورہ بشیر اوّل کی وفات کے چند دن بعد ہواتھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھوآیا اورپھر طبیعت خراب ہوگئی۔ مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لئے باہر گئے۔ جاتے ہوئے فرمانے لگے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی۔ چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت سے کہاکہ اس سے پوچھو۔ میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے۔ شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہوگئی ہے۔ میں پردہ کراکر مسجد میں چلی گئی تو آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ جب میں پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی اورآسمان تک چلی گئی۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت طاری ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ خاکسار نے پوچھا دوروں میں کیا ہوتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اوربدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے۔ خصوصاً گردن کے پٹھے درد، سر میں چکرہوتا تھا اور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بڑے سخت ہوتے تھے۔ پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہ رہی اورطبیعت عادی ہوگئی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اول ص۱۶،۱۷،روایت نمبر۱۹)